Maktaba Wahhabi

383 - 871
اہلِ علم کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ اسلام سے اعراض کریں تو کہہ دو کہ آگاہ رہو! ہم اور تم یعنی لڑائی میں برابر ہیں،ہمارے اور تمہارے درمیان صلح نہیں،[1]تو اس بنا پر یہ آیت محکم ہوگی۔ سورۃ الحج: اس سورت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔سیدنا ابن عباس،ابن زبیر رضی اللہ عنہم اور قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ چار آیات کے سوا مدنی ہے اور وہ چار آیتیں : ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْل﴾ سے اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ﴾ تک ہیں۔جمہور کہتے ہیں کہ ملی جلی ہے،کچھ مکی اور کچھ مدنی ہے اور یہی صحیح ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ اول سورت سے تیس آیات تک مدنی ہے اور بقیہ مکی ہے۔نیز ان میں سے رات کو اترنے والی پانچ آیات مدنی ہیں۔اس میں دو یا تین حکم منسوخ ہیں : پہلی آیت: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰی۔ٓ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہ﴾ [الحج: ۵۲] [اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کوئی نبی مگر جب اس نے کوئی تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں (خلل) ڈالا] کہتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰٓی﴾ [الأعلیٰ: ۶] [ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا] سے منسوخ ہے۔لیکن اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ آیت محکم ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دلاسا د ینا ہے کہ تمھاری تلاوت و قراء ت میں شیطان کا غلط القا اور نسیان کوئی نئی چیز نہیں ہے،گذ شتہ پیغمبر وں کے ساتھ بھی اس نے ایسے ہی کیا ہے،لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کے القا کو منسوخ کرکے اپنی آیتوں کو محکم بنایا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحکم ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی* اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ [النجم: ۳،۴] [اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے] شیطان کے القا کی پذیرائی کرنے سے مامون ہیں۔اکثر تفسیروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اس عبارت: ’’تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَإِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی‘‘
Flag Counter