Maktaba Wahhabi

472 - 871
ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تحریمِ کلام سے پہلے کی تھی،پھر منسوخ ہوگئی اور اس میں بحث ہے،کیونکہ تحریمِ کلام مکہ میں تھی اور یہ واقعہ مدینے میں ہوا۔ شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ کلامِ ناسی غیر مبطل اور کلامِ عامد مبطل ہے،اگر چہ تھوڑا ہو۔اس حدیث کی تاویل ان کے نزدیک یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناسی تھے اور اپنے کلام کی بنیاد اس پر رکھی کہ نماز پوری ہوگئی۔یہ نسیان ہے اور ذوالیدین کاکلام قصر نماز کے توہم پرتھا،لہٰذا اس کا حکم ناسی کا حکم ہو گا۔قوم کا کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا اور اجابتِ رسول مبطلِ صلات نہیں ہے۔مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تھوڑا کلام نماز کو درست کرنے کے لیے ہو تو مبطل نہیں ہے،جیسے کوئی کہتا ہے کہ نمازپوری نہیں ہوئی اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے پوری کی ہے۔اس نوعیت کاکلام حدیث ((نُھِیْنَا عَنِ الْکَلَامِ))اور ((لَا تَکَلَّمُوْا))سے مخصوص ہے۔ایسے ہی’’المسویٰ شرح الموطأ‘‘ میں ہے۔اس مسئلے پر پورا کلام تحقیق کے ساتھ ہم نے’’دلیل الطالب ‘‘ میں کیا ہے اور وضاحت کے ساتھ صحیح موقف ذکر کیا ہے،اسے دیکھو۔[1] گیارھویں حدیث: ابوسعید رضی اللہ عنہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے: ((إِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا لَھَا)) [2] یہ حدیث صحیحین وغیرہ میں ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث’’قَامَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثُمَّ قَعَدَ‘‘[3] (رواہ مسلم) سے منسوخ ہے،یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے لیے کھڑے ہوئے،پھر بیٹھ گئے۔ایک روایت ان سے اس لفظ کے ساتھ ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَمَرَنَا بِالْقِیَامِ بِالْجَنَازَۃِ،ثُمَّ جَلَسَ،وَأَمَرَنَا بِالْجُلُوْسِ)) [4] (رواہ أحمد وأبو داؤد)
Flag Counter