Maktaba Wahhabi

509 - 871
صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین،فقہا ومتکلمین اس طرف گئے ہیں کہ یہ اصولِ شریعت میں سے ایک اصل ہے،اس کے ذریعے سے احکامِ واردہ پر ادلہ سمعیہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ظاہر یہ نے اس کا انکار کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے،جس کے بارے میں قرآن وحدیث میں کوئی منصوص علیہ یا نص کے مضامین سے معدول عنہ حکم اور اس کی دلیل نہ ہو۔یہ قیاس سے بے نیاز کردیتا ہے اور شک نہیں کہ کتاب وسنت کی نصوص کے عمومات ومطلقات میں ہر حادثے کا حل ہے اور یہ دونوں ہر پیش آمدہ مسئلے کے بیان کے ساتھ قائم ہیں،جس نے اسے پہچانا،پہچان لیا اور جس نے نہ جانا،وہ ناواقف رہ گیا۔ ارکانِ قیاس کا بیان: قیاس کے ارکان چار ہیں : 1۔ اصل2۔ فرع3۔ علت4۔ حکم ان میں سے ہر ایک کی طویل تفصیل ہے۔صحتِ قیاس کی بارہ شرائط ذکر کی گئی ہیں،جو اپنے محل میں مذکور ہیں۔ہر قیاس میں درست علت کا اعتبار ہے،جیسا کہ جمہو رکا مذہب ہے اور علت کے لیے مسالک ہیں۔اسباب میں قیاس کے جاری ہونے میں اختلا ف ہے۔ایسے ہی حدود و کفارات میں قیاس سے ایک جماعت نے روکا ہے اور ایک جماعت نے جائز کہا ہے۔مستدل کے کلام پر معترض کا اعتراض تین قسموں پر ہوتا ہے: مطالبات،قوادح اور معارضات۔ان تینوں کی تفاصیل کا دائرہ بہت وسعت رکھتا ہے۔اعتراض کی انواع کو تقریباً چالیس انواع تک پہنچایا گیا ہے۔ استحسان اور مصالح مرسلہ: استحسان کی تحقیق میں کئی قول ہیں۔ایک جماعت اس میں الجھی ہوئی ہے۔جمہور نے اس کا رد کیا ہے،یہاں تک کہ شافعی رحمہ اللہ نے فرمایاہے: ’’من استحسن فقد شرع‘‘[1] [جس نے استحسان کیا تو اس نے شریعت سازی کی] بعض اہلِ علم نے فرمایاہے کہ استحسان کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ایک دلیلِ شریعت کی تقدیم پر اور یہ واجب العمل ہے،کیونکہ حسن و قبح شرعی ہے اور دوسرا مخالفتِ دلیل پر۔مثال کے طور
Flag Counter