Maktaba Wahhabi

510 - 871
پر کوئی ایسی چیز ہو،جو دلیلِ شریعت سے محظور ہو اور عوام کی عادات میں ثابت ہو تو اس کا قول حرام ہوگا۔یہاں دلیل کی پیروی اور ترکِ عادت و رائے واجب ہے،خواہ دلیل نص ہو یا اجماع یا قیاس۔اس جگہ ایک دوسری چیز ہے جس کانام ‘’مصالح مرسلہ‘‘ رکھتے ہیں اور اسے استدلال بالمرسل بولتے ہیں۔اس میں کئی مذاہب اور اقوال پر اختلاف ہے۔جمہور اس سے تمسک کو مطلقاً روکتے ہیں۔یہ شریعت کے اصولِ اربعہ کا بیان ہے اور اس کی تفصیل مبسوط کتابوں میں ڈھونڈ نی چاہیے۔ اجتہاد: رہا اجتہاد تو فقہا کے عرف میں اس کی کئی تعریفیں ہیں : آمدی نے کہا ہے: ’’ھو استفراغ الوسع في طلب الظن بشییٔ من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس النفس العجز عن المزید علیہ‘‘[1] [احکامِ شرعیہ میں سے کسی چیز کے ساتھ طلبِ ظن میں اس طرح پوری کوشش صرف کرنا کہ نفس اس سے زیادہ سے عاجز آ جائے] لہٰذا مجتہد وہ ہے،جو حکم شریعت کے ظن کو طلب کرنے میں پوری کوشش سے کام لے۔نیز ضروری ہے کہ وہ عاقل،بالغ،صادق الملکۃ اورماخذ سے احکام نکالنے پر قادر ہو۔اس کی کئی شرطیں ہیں : اول،دوم: کتاب و سنت کی نصوص کا عالم ہو،کیونکہ ان دونوں میں سے ایک میں بھی قاصر غیر مجتہد ہے یا اس کے لیے اجتہاد جائز نہیں ہے۔اس میں احکام سے متعلق مقدار کی معرفت شرط ہے،جو بہت تھوڑی ہے۔ تیسری: زبانِ عرب کا ایسے طریقے پر عارف ہوکہ کتاب عزیز اور سنت مطہرہ وغیرہ کے غریب کی تفسیر کرسکتا ہو۔اس کا ازبر ہونا شرط نہیں ہے،بلکہ اس فن کے ائمہ کی کتابوں سے اس کے نکالنے پر قدرت کافی ہے۔انھوں نے اس کی تقریب و تہذیب حروف ہجائیہ پر اچھے انداز سے کی ہے۔ چوتھی: اصولِ فقہ کا عالم،بلکہ اس میں ماہر اورکثیر الاطلاع ہو،کیونکہ اجتہاد کا ترازو اور اس کی اساس یہی علم ہے۔
Flag Counter