Maktaba Wahhabi

512 - 871
اجتہاد کی تجزی: اجتہاد کی تجزی میں اختلاف کیا گیا ہے۔ایک جماعت نے روکا ہے اور ایک جماعت نے جائز قرار دیا ہے،مگر درست اس کا عدمِ جواز اور وجود ہے۔درست مسائل شرعیہ میں اگر وہ قطعی معلوم بالضرورہ ہوں،جیسے کہ ایک ساتھ پانچ نمازوں اور صومِ رمضان کا وجوب تو اس کا موافق مصیب اور اس کا مخطی غیر معذور ہے۔اگر ضروریاتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے اور نہ اس کی دلیل قاطع ہے تو اس میں مخطی تقصیر کی صورت میں گناہ گار ہے اور اس سے بحث کے اندر عدمِ تقصیر کی صورت میں گناہ گار نہیں ہے۔جس میں دلیل قاطع نہیں ہے،اس میں اختلاف طویل ہے۔ درست یہ ہے کہ حق ایک ہے اور اس کا مخالف مخطی ماجور ہے،اگراس میں اجتہاد کا حق پوراکیا ہو اور مابہ الا جتہاد کے اِحرازکے بعد اپنی طرف سے اس کی بحث میں کسی تقصیر سے راضی نہ ہوا ہو۔یہ قول باطل ہے کہ تعددِ مجتہدین کی و جہ سے حق متعدد ہے۔ تقلید: تقلید اس شخص کی رائے کو بغیر حجت قبول کرنے سے عبارت ہے،جس کی حجت بغیر حجت قائم نہ ہوتی ہو۔یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ قولِ نبی کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے،کیونکہ آپ کا قول وفعل خود حجت ہے۔قاضی رحمہ اللہ نے تقریب میں اجماع نقل کیا ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے اخذکرے اور اس کی طرف لوٹے،وہ مقلد نہیں ہے،بلکہ وہ دلیل اور علم یقین کی طرف جارہا ہے۔انتھیٰ۔اس میں اختلاف کیا گیا ہے کہ اﷲ کے وجود وصفات سے متعلقہ مسائل میں تقلید جائز ہے یا نہیں ؟ ایک جماعت جواز کی طرف گئی ہے اور ایک جماعت کہتی ہے کہ جائز نہیں ہے۔ابو اسحاق رحمہ اللہ نے اس پر اہلِ حق اہلِ علم سے اجماع کی حکایت کی ہے۔اگر تو بغیر دلیل جانے اس کا اعتقاد کیا تو اکثر ائمہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ اہلِ شفاعت مومن ہے،اگر چہ ترکِ استدلا ل کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے،چنانچہ ائمہ حدیث اسی کے قائل ہیں۔اشعری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب تک جملہ مقلدین سے باہر نہ ہو،مومن نہیں ہے،مگر یہ باطل ہے۔اس قول پر علم کا نشان نہیں ہے،جب کہ درست موقف پہلا ہی ہے۔ نیز مسائل شرعیہ فرعیہ میں جوازِ تقلید کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے۔ایک جماعت نے جائز قرار دیا ہے اور ایک جماعت نے ناجائز۔قرافی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مالک رحمہ اللہ اور جمہور علما کا
Flag Counter