Maktaba Wahhabi

531 - 871
قرآن مجید کامقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا﴾ [بني إسرائیل: ۸۸] [کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے،اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو] اس مفہوم میں اورآیات بھی وارد ہوئی ہیں،لہٰذا اس بہت بڑے معجز کلام کے علوم میں نظر کرتے ہوئے مشغول و مصروف ہونا،جس نے تمام مخلوق کو نصوص قرآنیہ اور ضرورت عقلیہ کے ساتھ عاجز کر دیا،تمام لوگوں کے علومِ اجناس و امثال میں مصروف ہونے سے بہتر ہے۔ہر وہ شخص جو مخلوق کو اس کتاب اور اس کے علم کی طرف دعوت دینے والے پر نکتہ چینی کرتا ہے،وہ علم اور اہلِ علم کے دائرے سے خارج اور جہلا کی جماعت میں شامل ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَقَدْ جِئْنٰھُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ [الأعراف: ۵۲] [اور بلا شبہہ یقینا ہم ان کے پاس ایسی کتاب لائے ہیں،جسے ہم نے علم کی بنا پر خوب کھول کر بیان کیا ہے،ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر جو ایمان رکھتے ہیں ] اس آیت کے الفاظ ﴿فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ﴾ قابلِ غور ہیں کہ یہ کس قدر قرآن مجید کے مفہوم کے مطابق ہیں۔ایجاز کی جگہ ایجاز کے ساتھ اور اکتفا کی جگہ جملہ اکتفا کے ساتھ،اس کے مطابق جو علمِ الہٰی میں مومنوں کے مصالح کے لیے مقرر ہے،کون سی کتاب ایسی ہے جو اس نہج پر مکمل علم کے ساتھ مفصل بیان کی گئی ہو،جس طرح یہ قرآن کریم سے صادر ہوئی ہے۔اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا* قَیِّمًا﴾ [الکھف:۱،۲] [جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔بالکل سیدھی]
Flag Counter