Maktaba Wahhabi

568 - 871
((أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا،إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ،وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ،وَإِذَا عَاھَدَ غَدَرَ،وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) [1] [جس میں چار خصلتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہو گا: 1۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے،2۔جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،3۔جب وہ عہد کرے تو دھوکا دے،4۔جب جھگڑا کرے تو فجور کرے (یعنی گالی دے)] اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ان کے اعمال و اخلاق کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ان دونوں گروہوں کے احوال اس لیے بھی بہت زیادہ بیان فرمائے ہیں،تاکہ ساری امت ان سے گریز کرے۔ اس امت میں منافقین کا نمونہ: اگر آپ منافقوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو امرا کی مجلس میں چلے جائیں اور ان کے مصاحبوں کو دیکھیں کہ کس طرح وہ ان (امرا) کی مرضی کو شارع کی مرضی پر ترجیح دیتے ہیں۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان منافقوں جنھوں نے بلا واسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا اور نفاق کا راستہ اختیار کیا اور ان منافقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جو اس دور میں پیدا ہوئے ہیں،انھوں نے یقینی طور پر شارع کے حکم کو معلوم کر لیا،پھر انھوں نے اس کے برخلاف چیزوں کو اس پر ترجیح دی اور اس کی مخالفت پر پیش قدمی کی۔ علیٰ ہذا القیاس معقولیوں (عقل پرستوں) کی وہ جماعت،جن کے دلوں میں شکوک و شبہات بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ آخرت کو بالکل بھول چکے ہیں،وہ بھی منافقوں کا ایک نمونہ اور ماڈل ہیں۔ بہرحال جب آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو یہ گمان نہ کیا کریں کہ جس قوم اور گروہ کے ساتھ مخاصمہ ہوا،وہ گزر چکی ہے،بلکہ مندرجہ ذیل حدیث: ((لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ))[تم پہلے لوگوں کے طریقے پر چل پڑو گے] کے پیش نظر گذشتہ دور میں جو بھی بلا اور گمراہی تھی،آج کے اس دور میں بھی اس کا نمونہ موجود ہے۔پس مقصودِ اصل ان مقاصد کے کلیات کا بیان ہے نہ کہ وہ جو ان
Flag Counter