Maktaba Wahhabi

576 - 871
تیسرا باب نظمِ قرآن کے معانی مخفی ہونے کی وجوہات کا بیان جان لینا چاہیے کہ قرآن کریم خالصتاً عرب اول کے محاورے کے مطابق نازل ہوا،عرب لوگ قدرتی طور پر اس کے صحیح معنی سمجھ لیتے تھے،چنانچہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب سے متعلق فرمایا: ﴿وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ﴾ [الزخرف: ۲] [اس کتاب کی قسم جو کھول کر بیان کرنے والی ہے۔] نیز فرمایا: ﴿قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ [یوسف: ۲] [اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھو] مزید فرمایا: ﴿اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ﴾ [ھود: ۱] [جس کی آیات محکم کی گئی ہیں،پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا] شارع کی مرضی یہ ہے کہ قرآن مجید کی مشابہ آیات کی تاویل میں،اللہ تعالیٰ کی صفات کی حقیقت کو متصور کرنے میں اور مبہم امور کی تخصیص اور قصوں کی تفصیل وغیرہ میں غور و خوض نہ کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم سوال کیا کرتے تھے،اسی لیے سوالات کم ہی نقل کیے گئے ہیں۔مگر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور گزر گیا اور عجمیوں کی مداخلت سے پہلی زبان متروک ہوئی،تب بعض مقامات پر شارع کی مراد کو سمجھنا دشوار اور مشکل ہو گیا،چنانچہ لغت اورعلم نحو کی چھان بین کی حاجت ہوئی۔سوال و جواب کاسلسلہ شروع ہوا،تفسیری کتب کی تصنیف کا
Flag Counter