Maktaba Wahhabi

58 - 871
[قرآن مجید کی قراء ت دیگر تمام اذکار و اوراد کی طرح نیت کی محتاج نہیں ہے،الا یہ کہ جب کسی نے نماز کے علاوہ اس کی قرا ء ت کی نذر مانی ہو] آدابِ ذکر: جب قرآن مجید کی تلاوت کرنا افضل ذکر ٹھہرا تو آدابِ ذکر کا معلوم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’عدۃ‘‘[1] میں لکھا ہے کہ جس مکان میں ذکر کرے،وہ پاکیزہ اور خالی ہو۔ذکر کرنے والا اپنے منہ کو مسواک سے صاف کر لے،تاکہ اس میں بدبو نہ رہے۔پھر وہ قبلہ رو ہو کر (تلاوت کے دوران) لفظ میں تدبر اور معنی کا تعقل کرے اور جس کو نہ جانے اس کو دریافت کر لے،کیوں کہ ثواب موعود تب ہی ملے گا،جب اس کا تلفظ کر لے اور خود کو سنائے۔[2] انتہیٰ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ذکرکرنے والے کا مذکورہ معانی کے لیے تدبر کرنا اکمل ہے کہ اس کے بغیر وہ مخاطب کے حکم میں نہیں ہو گا،لیکن گو اس کا اجر مکمل ہو،کچھ ثوابِ موعود کے منافی نہیں ہے،کیوں کہ وہ وعدہ اس سے عام ترہے کہ وہ معانی کے تدبر کے ساتھ ذکر کرے یا اس کے بغیر،کیوں کہ ثوابِ موعود تدبر و فہم کے ساتھ مقید وارد نہیں ہوا ہے۔نیز نفس کو سنانے کی بھی کوئی دلیل نہیں آئی ہے،بلکہ صرف زبان کے ساتھ تلفظ اور تحریک پر قول صادق آتا ہے،گو اس میں اِسماعِ نفس نہ ہو۔ صحیح حدیث میں آیا ہے: ((فَإِنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ نَفْسِہِ،ذَکَرْتُہُ فِيْ نَفْسِيْ))[3] [پھر اگر وہ (بندہ)مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اپنے نفس میں اس کو یاد کرتا ہوں ] لہٰذا صرف ذکرِ نفسی ثواب کا مقتضی ٹھہرا،تو وہ ذکرِ لسانی جس پر قول صادق آتا ہے،کس طرح ثواب کا مقتضی نہ ہو گا؟ الحاصل مذکورہ شرط لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے،نہ اصل ثواب کے اعتبار سے
Flag Counter