Maktaba Wahhabi

589 - 871
احکام و مسائل کا استنباط توجیہ کا بیان: فنونِ تفسیر میں سے ایک،توجیہ ہے۔توجیہ وہ فن ہے جس کی بہت سی شاخیں ہیں،جنھیں شارحین اصل عبارت کی شرح کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔جس سے ان کی ذکاوت کا امتحان اور ان کے درجوں کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کی توجیہ سے متعلق بہت گفتگو کی ہے،حالانکہ اس زمانے میں توجیہ کے اصول و قواعد نہیں بنے تھے۔ توجیہ کی حقیقت یہ ہے کہ اگر شارح کومصنف کے کلام کو سمجھنے میں کسی دشواری کی بنا پر رک جانا پڑے تو اس کو حل کر دے۔چونکہ کتاب پڑھنے والوں کے ذہن ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے،اس لیے توجیہ بھی ایک سی نہیں ہوتی۔مبتدیوں کی توجیہ کچھ اور ہوتی ہے اور منتہیوں کی توجیہ کچھ اور۔بسا اوقات منتہی کے دل میں کوئی ایسی مشکل پیدا ہو جاتی ہے،جسے حل کرنے کی اسے ضرورت ہوتی ہے،مگر مبتدی اس سے غافل ہوتا ہے،وہ اس کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔کلام کا بہت سا حصہ مبتدی کے لیے مشکل ہوتا ہے،مگر منتہی کے ذہن میں کوئی بات مشکل نہیں ہوتی۔مگر جسے عوام کی مختلف ذہنیتوں کا احاطہ کرنا ہوتا ہے،وہ انہی کی سطح پر آتا ہے اور ان کی سمجھ کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ توجیہ کا معنی کلام کی وجہ کا بیان کرنا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات کسی آیت میں کوئی ایسا ظاہری شبہہ آ جاتا ہے،جو اس صورت سے بعید ہوتا ہے جو اس آیت کا مدلول و مفہوم ہے یا دو آیتوں کا باہم تناقص و تعارض ہوتا ہے یا آیت کے مصداق کا تصور مبتدی کے ذہن پر مشکل ہوتا ہے اور قید کا فائدہ اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتا۔جب مفسر اس اشکال کا حل کرتا ہے تو مفسر کے اس حل کو توجیہ کہتے ہیں،جیسے آیت: ﴿ یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا﴾ سے متعلق لوگوں نے پوچھا کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان بہت لمبا فاصلہ ہے تو پھر ہارون علیہ السلام مریم[ کے بھائی کیسے بن گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا کہ بنی اسرائیل کی یہ
Flag Counter