Maktaba Wahhabi

593 - 871
قرآن مجید میں تصرفاتِ نحویہ کا بیان کلام کا مطلب مخفی رہنے کی وجوہ: کلام کا اصل مطلب جن وجوہ سے مخفی رہتا ہے،وہ درج ذیل ہیں : 1۔کلام کے بعض اجزا یا حروف محذوف ہوں۔ 2۔ایک شے کو دوسری شے سے بدلا گیا ہو۔ 3۔مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم کر دیا گیا ہو۔ 4۔متشابہات،تعریضات اور کنایات استعمال کیے گئے ہوں اور معنی مقصود کی تصویر کشی ان محسوسات کے ذریعے سے کی گئی ہو،جو عادت میں اس معنی کو لازم ہوں۔ 5۔استعارہ بالکنایہ اور مجازِ عقلی کا استعمال کیا گیا ہو۔ اب ہم ان سے متعلق بہ طورِ اختصار چند مثالیں پیش کرتے ہیں،تاکہ ان سے بصیرت حاصل ہو۔ حذف اور اس کی اقسام: حذف کی بہت سے قسمیں ہیں : حذفِ مضاف،حذفِ موصوف اور حذفِ متعلقات وغیرہ۔ یہ بات بھی جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید میں’’إنَّ‘‘ کی خبر اکثر محذوف ہوتی ہے۔اسی طرح شرط کی جزا،مفعولِ فعل اور مبتدا وغیرہ بھی عام طور پر محذوف ہوتے ہیں،مگر ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بعد میں آنے والا لفظ حذف پر دلالت کرتا ہو۔ نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ ﴿اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ﴾ اور ﴿اِذْقَالَ مُوْسٰی﴾ جیسے مقامات میں’’إذ‘‘ اصل میں’’ظرف فعلی‘‘ ہوتا ہے،مگر یہاں خوف پیدا کرنے اور ڈرانے کے معنی میں نقل کیا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں سمجھو کہ کوئی شخص کسی ہول ناک موقع یا ہول ناک واقعہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ کئی باتوں کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ اس میں جملے کی ترکیب،تسلسل اور اعراب کو مد نظر نہیں
Flag Counter