Maktaba Wahhabi

597 - 871
تقدیم و تاخیر: تقدیم و تاخیر سے بھی مطلب سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے،اسی طرح الفاظ کا امرِ بعید سے تعلق وغیرہ بھی دشواری کا موجب ہوتا ہے۔ کلام کے مروجہ طریقوں پر زیادتی: کلام کے مروجہ طریقوں پر زیادتی کئی طرح سے ہوتی ہے: 1۔کبھی تو صفت سے ہوتی ہے۔ 2۔کبھی ابدال سے اضافہ ہوتا ہے۔ 3۔کبھی عطف تفسیری سے اضافہ ہوتا ہے۔ 4۔کبھی تکرار سے اضافہ ہوتا ہے۔ 5۔بعض اوقات فاعل یا مفعول پر حرفِ جر زیادہ کرتے ہیں اور اسے حرفِ جر کے واسطے سے فعل کا مفعول بناتے ہیں،تاکہ اس کے ذریعے سے مفعول اور فعل پر زور و تاکید ہو جائے۔چنانچہ’’واؤ‘‘ اکثر مقامات پر تاکیدِ اتصال کے لیے آتا ہے،بہ طور حرفِ عطف نہیں۔اسی طرح’’ف‘‘ بھی زائد آتا ہے۔بعض اوقات عبارت میں ضمیروں کے منتشر ہونے اور ایک کلمے کے دو معنی مراد لینے سے فہمِ مطلب میں دشواری ہوتی ہے۔اسی طرح’’جَعَلَ‘‘ اور’’شَیْیٌٔ‘‘ وغیرہ بھی مختلف معنوں میں مستعمل ہیں۔’’جَعَلَ‘‘ کبھی تو’’خَلَقَ‘‘ کے معنی میں آتا ہے اور کبھی’’اِعْتَقَدَ‘‘ کے مفہوم میں ہوتا ہے۔لفظِ’’شَیْیٌٔ‘‘ کبھی فاعل کی جگہ آتا ہے اور کبھی مفعول بہ یا مفعول مطلق وغیرہ کی جگہ میں ہوتا ہے،جیسے: ﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ ﴾ اس آیت میں ﴿غَیْرِ شَیْئٍ﴾ سے مراد’’غَیْرِ خَالِقٍ‘‘ ہے۔کبھی’’أمر‘‘،’’نبأ‘‘ اور’’خَطْب‘‘ سے مراد وہ چیز ہوتی ہے،جس کے متعلق کچھ بتایا جا رہا ہو،جیسے : ﴿ھُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ﴾ یعنی عجیب قصہ ہے۔ اسی طرح’’خیر‘‘،’’شر‘‘ اور ان کے ہم معنی الفاظ مختلف مقامات پر مختلف معنوں میں مستعمل ہوتے ہیں۔انتشارِ آیات بھی اسی قسم (انتشارِ ضمائر) میں داخل ہے،مثلاً ایک آیت کا حقیقی مقام قصے کے اختتام کے بعد ہوتا ہے،مگر اسے اس سے پہلے بیان کر دیا جاتا ہے،پھر قصے کا سلسلہ شروع ہو جاتا
Flag Counter