Maktaba Wahhabi

599 - 871
محکم،متشابہ،کنایہ،تعریض اور مجازِ عقلی کا بیان محکم: محکم اس کلام کو کہتے ہیں جس سے زبان دان صرف وہی مخصوص معنی سمجھ سکے،جس معنی میں وہ کہا گیا ہے۔اس سمجھنے سے اولین عربوں کا فہم مراد ہے نہ کہ ہمارے دور میں بہت باریکی نکالنے والے اور بال کی کھال اتارنے والے عالموں کا،جن کی دقتِ نظری ایک ایسا سخت مرض ہے،جس کے ذریعے سے وہ محکم کو متشابہ اور معلوم کو مجہول بنا دیتے ہیں۔ متشابہ: متشابہ اس کلام کو کہتے ہیں،جس کے دو معنی ہوں۔ایسا اس وقت ہوتا ہے،جب کہ جملے میں کسی ضمیر کے دو مرجع ہوں یا کلمہ دو معنی میں مشترک ہو۔ایسا اشتباہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے،جب کلام کے دو لفظوں پر جو قریب و بعید ہوں،عطف کا احتمال ہو۔نیز اس صورت میں بھی اشتباہ ہوتا ہے،جہاں عطف بھی ہو سکتا ہو اور نئے جملے کا آغاز بھی ممکن ہو۔ کنایہ: کنایہ ایسے اندازِ کلام کو کہتے ہیں،جس سے کوئی بات کسی کے لیے اس طرح ثابت کی جائے کہ سننے والے کا ذہن ایسی بات کی طرف منتقل ہو جائے،جو قدرتی طور پر عقل کے نزدیک لازم ہو،خواہ لزوم عادی ہو یا لزوم عقلی۔اسی طرح اپنے دلی خیالات کو محسوسات کے ذریعے سے ظاہر کرنا بھی کنائے میں داخل ہے۔یہ بہت وسیع مضمون ہے۔عربوں کے اشعار،خطبات،قرآن عظیم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت سے کنایات پائے جاتے ہیں۔ تعریض: تعریض یہ ہے کہ کوئی عام بات کہیں،مگر اس سے مقصود کسی شخص کا حال بیان کرنا ہو یا کسی
Flag Counter