Maktaba Wahhabi

604 - 871
دیتا ہے۔یہ ادیبوں کا گروہ ہے۔ علم معانی و بیان وہ علم ہے،جو صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم کے گزر جانے کے بعد ایجاد ہوا ہے۔لہٰذا اس سلسلے میں جو کچھ جمہور عرب کے عرف سے سمجھ میں آیا ہے،وہ سر آنکھوں پر اور جو کچھ امر خفی ہے،جو سوائے اس فن کے باریکی نکالنے والوں کے کسی کی سمجھ میں نہیں آتا،ہم نہیں سمجھتے کہ وہ قرآن کا مطلوب ہو۔ 6۔بعض لوگ قرآن کی ان قراء توں کے بارے میں روایت کرتے ہیں،جو صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم،دیگر اساتذہ اور نحویوں سے منقول ہیں اور قراء ت سے متعلق باریک باتوں پر بحث کرتے ہیں۔یہ قاریوں کی صفت ہے۔ 7۔ایک جماعت آیات میں ادنا مناسبت پا کر علمِ سلوک یا علمِ حقائق سے متعلق نکات پر گفتگو کرتی ہے۔یہ صوفیوں کا مسلک ہے۔ اشاراتِ صوفیہ کا تفسیر سے کوئی تعلق نہیں ہے: رہے صوفیہ کے اشارات و اعتبارات تو وہ فی الحقیقت فنِ تفسیر کا جزو نہیں ہیں۔کوئی سالک جب قرآن سنتا ہے تو بعض باتیں اس کے دل پر ظاہر ہوتی ہیں،وہ یا تو نظمِ قرآن سے متعلق ہوتی ہیں یا اس حالت سے جس سے سالک متصف ہوتا ہے یا اس علم و معرفت سے جو اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی عاشق جب لیلیٰ و مجنوں کا قصہ سنے اور اس کی وجہ سے اس کی معشوقہ یاد آ جائے اور ان واقعات کا منظر خیالی آنکھوں کے سامنے پھر جائے،جو اس کے اور معشوقہ کے معاملے میں ہو چکے ہیں۔ اعتبار و استشہاد: یہاں ایک اہم بات ہے جس پر مطلع رہنا مفید ہے،وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتبار و استشہاد کے فن کا اہتمام کیا ہے اور اس طریقے پر چلے ہیں،تاکہ وہ علماے امت کے لیے سنت ہو اور وہبی علوم کے لیے ایک دوسری راہ کا دروازہ کھل جائے۔مثال کے لیے درج ذیل آیت پر غور کرو: ﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی* وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی * فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی﴾ [اللیل: ۵،۷]
Flag Counter