Maktaba Wahhabi

609 - 871
معد،یہ سب سے اعلا اور افصح لغتیں ہیں۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس سے قریش،ہوازن،ہذیل اور اہلِ یمن کی لغت مراد ہے۔بعض نے کہا ہے کہ یہ سب سات قراء تیں تنہا بنو مضر کی لغت ہیں اور قرآن مجید میں متفرق اور غیر مجتمع طور پر ایک کلمے میں واقع ہوئی ہیں۔نیز انھوں نے کہا ہے کہ بعض کلمات میں مجتمع بھی ہوتی ہیں،مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿عَبَدَ الطَّاغُوْتَ﴾،﴿نَرْتَعْ وَ نَلْعَبْ﴾،﴿بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا﴾ اور ﴿بِعَذَابٍم بَئِیْسٍ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان سے مراد سات قراء تیں ہی ہیں اور یہی موقف صحیح ہے،کیوں کہ یہ موقف اس بارے میں وارد صحیح احادیث کے موافق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو مصاحف میں ثبت کروایا تھا اور ان کے صحیح ہونے کی خبر دی تھی اور جو تواتر سے ثابت نہ تھی،اس کو ترک کر دیا تھا۔اگرچہ کبھی ان قراء ات کے الفاظ و معانی مختلف ہو جاتے ہیں،مگر نفس الامر میں یہ متضاد و متباین نہیں ہوتیں۔جس کسی نے یہ کہا ہے کہ سات قراء توں سے مراد مختلف معانی ہیں اور اسی طرح اس کے اَحکام،اَمثال اور قصص بھی،اس نے غلطی کی ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قراء توں میں سے ہر قراء ت اور ایک قراء ت کو دوسری قراء ت سے بدلنے کے جواز کا اشارہ فرمایا ہے۔مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اَمثال کی آیات کو احکام کی آیات سے بدلنا حرام ہے،اسی طرح’’سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘ کو’’غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ‘‘ کے ساتھ بدلنا نادرست ہے،کیونکہ اس سے نظم و ترتیب قرآنی میں تغیر آ جاتا ہے اور اس پر اہلِ علم کا اجماع ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔واللّٰہ أعلم۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے ایک قراء ت پر (قرآن مجید) پڑھایا تو میں نے ان سے مزید طلب کیا تو انھوں نے مجھے مزید عطا فرما دیں۔میں ان سے مزید کی درخواست کرتا رہا اور وہ مجھے مزید عطا فرماتے رہے،حتیٰ کہ سات قراء تیں مکمل ہو گئیں۔[1] رائے کے ساتھ تفسیر کرنا: قرآن مجید میں بغیر علم کے محض رائے کے ساتھ گفتگو کرنا ممنوع ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
Flag Counter