Maktaba Wahhabi

769 - 871
اس کے بعد خطِ تعلیق منظر عام پر آیا۔خطِ دیوانی اور خطِ دشتی ایجاد ہوئے۔خطِ تعلیق کو سلطان علی مشہدی،میر علی اور میر عماد خوب لکھتے تھے۔خطِ دیوانی میں تاج وغیرہ بڑے ماہر تھے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کاتب تھے،جن کے حالاتِ زندگی کتابوں میں لکھے گئے ہیں،یہ ان کے ذکر کی مناسب جگہ نہیں ہے،کیونکہ کتاب میں ہماری غرض خطِ عربی کا بیان ہے،جس میں مصاحف کی کتابت مروج ہے۔ابوالخیر رحمہ اللہ وغیرہ نے علومِ خط میں صناعتِ خطیہ،علمِ آلاتِ خط،مثلاً قلم،اس کو تراشنا،دوات،روشنائی اور کاغذ کے احوال کی کیفیت کو بھی ذکر کیا ہے۔ان میں سے بعض پر ملا کاتب رحمہ اللہ نے تعاقب بھی کیا ہے اور ان کی تنقیح پر بحث کی ہے۔ نقطوں اور اعراب کا ذکر: صدر اول کے مسلمانوں نے لوگوں کے منہ سے بار بار سن کر قرآن و حدیث کو یاد کیا۔جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو ان پر نقطے اور اعراب لگانا ایک مجبوری بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ نقطے اور اعراب لگانے کا کام سب سے پہلے عامر نے کیا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف نے کیا۔نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو الاسود دؤلی نے علی رضی اللہ عنہ کی تلقین پر یہ کام کیا۔مگر ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں (نقطے اوراعراب) حروف کے ساتھ ہی لگائے گئے،کیوں کہ حروف کے ایک دوسرے کے ساتھ مشابہ ہونے کی وجہ سے ان کا نقطوں اور اعراب سے خالی ہونا اور بعد میں نقطوں کا لگایا جانا بعید محسوس ہوتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصحف کو ہر چیز سے،حتیٰ کہ نقطوں تک سے،صاف رکھا تھا۔پس اگر ان کے دور میں نقطے نہیں تھے تو مصحف کو خالی رکھنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ ابن خلکان رحمہ اللہ نے حجاج کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ابو احمد عسکری رحمہ اللہ نے کتاب التصحیف میں بیان کیا ہے کہ لوگ چالیس برس سے زائد عرصے تک تا ایامِ عبدالملک بن مروان مصحفِ عثمان میں پڑھتے رہے۔جب تصحیف زیادہ ہونے لگی اور عراق میں پھیل گئی تو حجاج گھبرا کر کاتبوں کے پاس گیا اور انھیں کہا کہ مشتبہ حروف پرعلامتیں لگاؤ۔کہا جاتا ہے کہ نصر بن عاصم رحمہ اللہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ اس کام کے لیے مقرر ہوا اور اس نے نقطے لگائے۔مگر اس کے باوجود اس میں تصحیف ہو جاتی تھی،لہٰذا پھر ان پر اعراب لگا دیے گئے۔انتھٰی۔
Flag Counter