Maktaba Wahhabi

796 - 871
باب العین عجائب القرآن: یہ دو جلدوں میں محمود بن حمزہ الکرمانی المعروف بہ تاج القراء رحمہ اللہ (المتوفی: بعد سنۃ ۵۰۰ھ؁) کی تالیف ہے۔ابو الخیر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مولف نے آیت میں بعض وجوہ کا ذکر کیا،پھر اس کے بعد غریب شَے کو بیان کیا۔اس نے سورۃ الفلق میں فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِِذَا وَقَبَ﴾ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ بعض تفاسیر میں جو لکھا ہے،کتنا عجیب ہے کہ’’ومن شر الذکر إذا انعظ وقیل: وئج وروي من غلمۃ لا عدۃ لھا‘‘ [اور شرم گاہ کی برائی سے جب وہ منتشر ہوتی ہے،یہ بھی مروی ہے کہ ایسے نوجوانوں کے شَر سے جو بے اعتبار وعدہ ہیں ] نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ((أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ سَمْعِيْ وَبَصَرِيْ وَبَطْنِيْ وَعَیْنِيْ)) [میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں اپنے کان،اپنی نگاہ،اپنے پیٹ اور اپنی آنکھ کے شر سے] اس تفسیر کو ذکر کرنا مناسب نہیں،لیکن میں نے اس لیے اس کا ذکر کر دیا،کیونکہ اس میں کئی عجیب اقوال ہیں۔ہر وہ بات جس کو میں عجیب کے لفظ سے موسوم کر دوں تو اس میں کچھ خلل اور خرابی ہے۔انتھیٰ۔ میں کہتا ہوں کہ مولف نے اس کا نام’’لباب التفسیر‘‘ رکھا ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘ کی نوع میں لکھا ہے کہ مذکورہ تالیف میں بہت سے ایسے منکر اقوال ہیں کہ تفسیر میں ان پر اعتماد کرنا حلال نہیں ہے اور نہ ان کا ذکر کرنا حلال ہے،الا یہ کہ اس طرح کے اقوال سے خبردار کرنا مقصود ہو۔[1] انتھیٰ۔ در حقیقت مذکورہ بالا تفسیر قرآن مجید کی تحریف ہے۔نعوذ باللّٰہ من جمیع ما کرہہ اللّٰہ۔ عرائس البیان في حقائق القرآن: یہ ابو محمد روز بہان بن ابو نصر البقلی الشیرازی الصوفی (المتوفی: ۶۰۶) کی تالیف ہے۔یہ اہلِ تصوف کے طریق پر ایک تفسیر ہے۔مولف نے کہا ہے کہ میں نے یہ کتاب اس طرح مختصر اور ہلکی پھلکی بنائی ہے کہ اس میں اطالت اور املال نہیں ہے۔میرے سامنے حقیقتِ قرآن اور لطائفِ بیان سے جو کچھ ظاہر ہوا،میں نے ان کو
Flag Counter