اٹھارویں : مولوی علی عباس چڑیا کوٹی کی تاریخ ہے:
قطعہ
فسر النواب عالي الجاہ من فاق في التفسیر أبنائَ الزمن
[نواب عالی جاہ نے قرآن مجید کی ایسی تفسیر کی کہ وہ اس تفسیر میں اپنے معاصرین سے فائق ہو گئے]
من کلام اللّٰہ رب العالمین کُلَّ خافٍ قد تواری واکتمن
[انھوں نے اللہ رب العالمین کے کلام کی ہر مخفی پوشیدہ اور چھپی ہوئی بات کی تفسیر کی]
قلت في تاریخہ مستبثرا أفوق تفسیر صدیق الحسن
[میں اس کی تاریخ میں خوشی خوشی یہ کہتا ہوں کہ سب سے فائق تفسیر،صدیق الحسن کی تفسیر ہے]
اس کی آغازِ طبع کے سال کی تواریخ میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
(۱) تفسیر الثواب (۲) گلشنِ فیض (۳) کشفِ فیض (۴) طور معنی رشادت (۵) شرح التفاسیر۔
اس تفسیر کی تقاریظ میں سے ایک وہ نثر اور نظم ہے،جس میں کمال فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔یہ قاضی طلا محمد پشاوری رحمہ اللہ کی فکرِ صائب کا نتیجہ ہے،جو انھوں نے تفسیر کے خاتمے پر پشاور سے بھوپال بھیجی تھی۔وہ نثر و نظم درج ذیل ہیں :
نثر
أطیب حمد یفوح أزہارہ علی صفحات العقول،وأعجب شکر یتکفل أنوارہ لتفریح القلب الکمد المبتول،یحکي ریا ریاضہ الزاہرات:
؎ نسیم الصبا جاء ت بریا القرنفل
ویثني عنان العمر الآبق ویجمع بین المشوق والشائق:
؎ بسقط اللوی بین الدخول وحومل
|