Maktaba Wahhabi

38 - 82
اور امت کے لیے مفید رجال کار تیار کیے جاسکتے ہیں۔ ۳۔ دین سے سچی محبت: احکام شریعت کی پابندی ہی سچے مخلص اور کھوٹے مسلمان کے درمیان فرق کرنے والی حد فاصل ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے علم سے نوازا ہو، جو اَہْلُ اللّٰہِ وَ خَاصَّتُہٗ کے عظیم لقب سے مشرف ہو، اسے چاہیے کہ وہ کما حقہ اہل قرآن کی صف میں شامل ہو ،جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ﴾ (البقرہ:۱۲۱) ’’وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عطا کی، وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں، جس طرح اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘ یعنی وہ کما حقہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((یَتَّبِعُوْنَہُ حَقَّ اتِّبَاعِہِ۔)) ’’وہ کما حقہ اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں تلاوت بمعنی اتباع وپیروی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں خالق کاینات فرماتے ہیں: ﴿وَالْقَمَرِ اِذَا تَلَاھَا﴾ (الشمس: ۲) ’’قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔‘‘[1] اہل علم نے قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مقری کے لیے چند صفات کو ضروری اور شرط قرار دیا ہے کہ وہ ثقہ ہو، مامون ہو، ضابط ہو،اسباب فسق اور خلاف مروء ت امور سے پاکدامن ہو۔[2] اپنے جمیع ظاہری و باطنی تصرفات میں کتاب و سنت کا متبع ہو۔ اور یہی صفت ہر خیر کی اصل اور ہر فضیلت کا منبع ہے۔[3]
Flag Counter