Maktaba Wahhabi

56 - 132
میں فیصلہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن و سنت) کی طرف رجوع کیا جا ئے گااور جو فیصلہ وہاں سے آئے گا، ہر فریق اپنی رائے سے دستبردار ہو کر ، اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے گا۔ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ آیت واضح کرتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے لوگ اپنے تمام روز مرہ معاملات کو کیسے حل کریں گے؟اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰه وَالرَّسُولِ﴾(النساء:۵۹) ایک مستقل اور قطعی اصول ہے جو سب کے لئے عام ہے۔‘‘ پانچواں فائدہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاملہ فہمی ، اختلاف کو انتہائی شاندار طریقے سے حل کرنے اور ہر نزاع کا خوبصورت فیصلہ کرنے کی صلاحیت ، اور امت کے ساتھ رحمت و شفقت کی آئینہ دار ہے۔آپ نے دونوں کی موجودگی میں پہلے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات سنی ، پھر ہشام رضی اللہ عنہ کا موقف سنا۔ اور اس کے بعد انتہائی نرمی اور شفقت و محبت کے ساتھ دونوں کے موقف کو درست قراردیا۔ چھٹا فائدہ ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نے جس صبر وتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ، اس سے واضح ہوتا ہوتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی کریمانہ اخلاق ، اور بلند حلم و بردباری جیسی اعلی خوبیوں سے متصف تھے۔ وہ گردن میں کپڑا ڈالے عمر فاروق فاروق کی قیادت میں چلے جا رہے ہیں، لیکن کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔کسی مزاحمت و جارحیت یا بدکلامی کا مظاہرہ نہیں کرتے،بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا رشتہ مرتے دم تک قائم رہا۔‘‘
Flag Counter