Maktaba Wahhabi

1005 - 609
زبان کو ایک زندہ وقائم زبان بنا دیا ہے،اور اس کو مٹنے سے محفوظ رکھا ہے۔اسی طرح تمام اصطلاحاتِ شرعیہ مثلاً نماز،زکوٰۃ،جہاد،روزہ،حج،مسجد حراتم،صفا،مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان کے ساتھ جو اعمال متعلّق ہیں،تواتر وتوارث کے ساتھ،سلف سے لے کر خلف تک،سب محفوظ رہے۔ان میں جو معمولی جزوی اختلافات نظر آتے ہیں،وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔شیر کے معنی ہر شخص کو معلوم ہیں،اگرچہ مختلف ممالک کے شیروں کی شکلوں اور صورتوں میں کچھ نہ کچھ اختلافات ہیں۔اسی طرح نماز دین میں مطلوب ہے۔وہ وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں،ہر چند کہ اس کی ہیئت میں بعض جزئی اختلافات ہیں۔جو لوگ اس طرح کی چیزوں میں زیادہ کرید اور موشگافی سے کام لیتے ہیں،وہ اس دینِ فطرت کے مزاج سے بالکل نا واقف ہیں جس کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے۔ مولانا سننِ متواترہ کو ہر حال میں واجب العمل تسلیم کرتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’سلف اور ائمہ نے اپنے مذہب کی صحت کی بدولت کتاب وسنت کو مضبوط سے پکڑا۔یہ نہیں کیا کہ باطل پسندوں اور ملحدوں کی طرح ان میں تفریق کر کے ایک چیز کو ترک کر دیتے۔‘‘[1] گویا مولانا کے نزدیک سنّت کا انکار کفر والحاد کے مترادف ہے۔وہ قرآن وسنت میں تفریق کے رجحان کے سخت مخالف ہیں۔دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ کا حکم یکساں طور پر پُر اَز حکمت ہوتا ہے خواہ وہ کتاب اللہ کی بنیاد پر ہو یا اس نور وحکمت کے مطابق جس سے خدا نے آپ کا سینہ بھر دیا تھا۔‘‘[2] درجِ بالا سطور سے یہ واضح ہوتا ہے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث وسنت دو الگ اصطلاحات ہیں،سنّت ان کے نزدیک قطعی ہے جبکہ حدیث ظنّی،صرف احادیث کی بناء پر کسی کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔جہاں تک حدیث کا معاملہ ہے تو اس باب میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نقطۂ نگاہ اضطراب کا شکار ہے۔ایک طرف تو مولانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی تفسیر کو بہترین تفسیر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف حدیث کو،خواہ وہ بخاری ومسلم کی روایت ہی کیوں نہ ہو،ظنّی الثبوت سمجھتے ہوئے ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور اپنے گمان میں قرآن اور اس کے نظم کے مخالف احادیث وآثار کو بیک جنبشِ قلم مردود قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض مقامات پر انہوں نے تفسیر قرآن بذریعہ حدیث کو غلط اُصول بھی قرا ردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔ احادیث کو تائید وتصدیق کیلئے لایا جائے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیر کا اصل الاُصول یہ قرار دیا کہ قرآن كريم كو پہلے نظائرِ قرآنی اور نظم کی روشنی میں سمجھا جائے،کیونکہ یہ اصل اور قطعی ہیں۔[3]جب آیت کریمہ کے مفہوم پر مکمل اطمینان ہوجائے،پھر احادیث وآثار کو،جو صحیح وثابت ہیں،بطور تائید
Flag Counter