Maktaba Wahhabi

1014 - 609
نے ایسے احکام کو اس لئے قبول کر لیا ہے،تاکہ ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار لازم نہ آئے۔چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سنت کے ذریعہ قرآن پر اضافے کو جائز قرار دیا ہے اور ’بیان‘ کی حدود اتنی وسیع کر دی ہیں کہ اس میں نسخ بھی شامل ہو جاتا ہے،اگرچہ وہ اسے نسخ نہیں کہتے،بلکہ ’بیان‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔اسی طرح احناف نے سنّت کے ذریعہ قرآن کے نسخ کو جائز قرار دیا ہے۔اگر یہ علماء ان احادیث کو قرآن سے مستنبط کر سکتے تو وہ قرآن ہی کو اختیار کرتے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث چونکہ فروع میں سے ہے اور قرآنِ کریم اصل ہے،لہٰذا وہ قرآن کو منسوخ بھی نہیں کر سکتی،خواہ وہ متواتر ہی کیوں نہ ہو۔ایسی صورت میں حدیث کی تاویل کرنی چاہئے یا توقّف اختیار کرنا چاہئے۔فرماتے ہیں: "والذي يهمّك(ثالثًا)هو أن تعلم أن الخبر،وإن تواتر لا ينسخ القرآن،وحقّه التأويل أو التوقّف. ألا ترى أن الإمام الشافعيّ وأحمد بن حنبل رحمهما اللّٰه وعامة أهل الحديث يمنعون نسخ القرآن بالحديث وإن كان متواترًا،وصاحب البيت أدرى بما فيه،فمن خالفهم من الفقهاء والمتكلّمين لا نُقيم لرأيهم وزنًا،ونعوذ باللّٰه أن ينسخ الرّسول كلام اللّٰه،ولا بدّ أن يكون وهم أو خطأ من الرّواة. والنّظر في دلائل الفريقين لا يزيدك إلا اطمئنانًا بما هو الحقّ الواضح." [1] کہ اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ خبر،اگرچہ متواتر ہو،قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔اس کی یا تو تاویل کریں گے یا اس میں توقّف کریں گے۔لیکن اس کی خاطر قرآن کو منسوخ نہیں کریں گے۔امام شافعی،احمد بن حنبل رحمہما اللہ اور عام اہل حدیث،حدیث کو قرآن کیلئے ناسخ نہیں مانتے اگرچہ متواتر ہو۔پس جب یہ ائمہ حدیث،جو حدیث کے معاملہ میں صاحب البیت کی حیثیت رکھتے ہیں،اس بات کے قائل نہیں ہوئے تو اس بارے میں ہم فقہاء ومتکلمین کی رائے کو کوئی وزن نہیں دیتے۔اللہ تعالىٰ ہم کو اس فتنہ سے امان میں رکھے کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ رسول،اللہ کے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے۔اس طرح کے مواقع میں تمام تر راویوں کے وہم اور ان کی غلطی کو دخل ہے۔اور فریقین کے دلائل پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ حق کیا ہے۔ تعجّب کی بات یہ ہے کہ بعض مقامات پر مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیر قرآن بذریعہ حدیث کو غلط اور جھوٹا اُصول قرار دیا۔چنانچہ تفسیر قرآن کا پہلا غلط اُصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "هل يأول الحديث إلى القرآن أم يعكس الأمر؟"[2] کہ کیا قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کی جائے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسرا غلط اصول تفسیر القرآن بالحدیث قرار دیا ہے۔[3] مخالفِ قرآن احادیث کو ردّ یا ان کی تاویل کی جائے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر قرآن وحدیث میں تعارض ہوجائے تو قرآن کی بجائے حدیث تاویل کی زیادہ مستحق ہے،اگر پھر بھی
Flag Counter