Maktaba Wahhabi

1018 - 609
قدر وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔میں اپنے بھائیوں کے طعن وتشنیع سے کسی قدر ڈرتا تھا لیکن حدیث سے ان کی محبت نے ان کو اس حد تک پہنچایا کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ حدیث بھی آیتِ کریمہ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾کے تحت داخل ہے اور انہوں نے اس قول کے نتائج پر غور نہیں کیا۔پس میرے لئے وقت آگیا ہے کہ میں حق وصداقت کا علم بلند کروں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ میرے سر کو میرے تن سے جدا کر دیا جائے۔ معلوم ہو کہ اکثر حضرات اہل حدیث کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ بخاری ومسلم نے جو کچھ روایت کر دیا ہے اس میں اب کسی قسم کے شک وشبے کی گنجائش نہیں۔تو اس مقصد سے ہم ان میں سے بعض مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے تم کو اندازہ ہوگا کہ اللہ عزو جل نے کیونکر علماء کو خدائی مقام دینے پر شناعت کا اظہار کیا ہے۔پس ہمارے لئے کچھ ضروری نہیں کہ انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کی بلا سوچے سمجھے تصدیق کر دیں۔ اس کے بعد مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بطور مثال بخاری ومسلم میں موجود سیدنا ابو ذر(31ھ)کی وہ حدیث پیش کی ہے جس میں سورج کے اللہ عزو جل کے عرش تلے سجدہ کرنے کا ذکر ہے،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو آیت کریمہ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا[1] کی تفسیر قرار دیا ہے۔[2] اس کے علاوہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بخاری ومسلم کی کذبِ ابراہیم والی روایت[3]پر بھی تنقید کی ہے،فرماتے ہیں: "والعجب کل العجب ممن یقبل ما هو مكذّب لنصّ القرآن مثل كذب إبراهيم عليه السّلام،ونطق النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بالقرآن من غير وحي. فينبغي لنا أن لّا نأخذ منها إلا ما يكون مؤيّدا للقرآن وتصديقا لّما فيه"[4] کہ سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ہے جو ایسی روایتیں تک قبول کرلیتے ہیں جونصوصِ قرآن کی تکذیب کرتی ہیں۔مثلاً سیدنا ابراہیم کے جھوٹ بولنے کی روایت یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافِ وحی قرآن پڑھ دینے کی روایت۔اس طرح کی روایات کے بارے میں ہمیں نہایت محتاط ہونا چاہئے صرف وہ روایتیں قبول کرنی چاہئیں جو قرآن کی تصدیق و تائید کریں۔ تفسیری روایات تفسیری روایات سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کی مراد احادیث اور آثار صحابہ وتابعین ہیں۔مولانا ان دونوں کو ایک ہی صف میں رکھتے ہیں۔
Flag Counter