Maktaba Wahhabi

1021 - 609
مزيد فرماتے ہیں: "خذ من الأحاديث ما يؤيّد القرآن لا ما يبدّد نظامه".[1] کہ احادیث و روایات میں سے صرف وہ چیزیں لینی چاہئیں جو نظمِ قرآن کی تائید کریں،نہ کہ اسکے تمام نظام کو درہم برہم کردیں۔ قبولیت روایات کی شرائط اگر حدیث وسنت کی تشریعی حیثیت کے متعلّق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے پیچھے موجود اقوال کو مدِ نظر رکھا جائے تو بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ تحقیقِ حدیث کیلئے مولانا کے پیش نظر کچھ تمہیدی اُصول تھے،جو حسبِ ذیل ہیں: 1۔ اصل واساس کی حیثیت قرآن کریم کو حاصل ہے۔ 2۔ سنت ثابتہ منصبِ رسالت کا ایک قدرتی جزو اور شریعت کی ایک مستقل بنیاد ہے۔قرآن اور سنت میں تفریق کرنا ایک ملحدانہ روش ہے۔ 3۔ حدیث کی حیثیت ایک فرع کی ہے جس کا باعث اس کی روایت میں ظن کا دخل ہے۔ 4۔ جو روایات اصل کے خلاف ہوں اور نصوصِ قرآنی کی تکذیب کرتی ہوں،انہیں قبول کرنا جائز نہیں۔ 5۔ قرآن کی تصدیق وتائید کرنے والی تمام روایات قابلِ قبول ہیں۔ 6۔ قرآن اور حدیث کے درمیان اختلاف کی صورت میں حکم قرآن ہوگا۔ 7۔ خبر اگرچہ متواتر ہو،قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ظن کی بنیاد پر نسخ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔اصل کرنے کا کام قرآن کے ساتھ سنت کی تطبیق ہے۔ تحقیقِ حدیث کے لئے مولانا فراہی رحمہ اللہ روایت کو ان اصولوں پر پرکھتے اور روایت ودرایت دونوں لحاظ سے حدیث کا درجہ متعیّن اور اس کے ردّ وقبول کا فیصلہ کرتے۔مثال کے طور پر سورۂ عبس کے شانِ نزول کی روایات میں سےام المؤمنین عائشہ صدیقہ،سیدنا انس،مجاہد اور ضحاک رحمہما اللہ کی روایات پر انہوں نے جو تبصرہ کیا ہے اس میں حسبِ ذیل پہلووں سے انہوں نے تحقیق کی ہے: 1۔ ان سب روایات کی سند ضعیف ہے۔ 2۔ ان کا دیا ہوا تاثر قرآن کے اشارات کے منافی ہے۔ 3۔ روایات میں باہم اس قدر اختلاف ہے کہ ان کی حیثیت اوہام کی ہو کر رہ گئی ہے۔ 4۔ ابتدائی راویوں میں سے کوئی بھی خود شریکِ واقعہ نہ تھا،لہٰذا یہ روایات خبر کا فائدہ نہیں دیتیں۔ 5۔ ان کو قبول کرنے سے اللہ عزو جل کی غیب دانی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوتی ہے۔صحیح روایت سے غلط نتائج پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔
Flag Counter