Maktaba Wahhabi

1036 - 609
قوموں کی ثابت شدہ تاریخ اللہ تعالیٰ کی سنتِ مبارکہ یہ ہے کہ وہ جب کسی قوم کی طرف نبی کو مبعوث فرماتے ہیں وہ نبی انہی میں سے یعنی اسی قبیلہ سے ہوتا ہے۔وہی زبان بولتا ہے،جو اس کی قوم بولتی ہے،تاکہ قوم کو نبی کی بات سمجھنے میں کسی قسم کی نامانوسیت نہ ہو۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ[1] قریش مکہ عرب تھے،انہی میں سے خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ نبی چنا گیا اور ان پر اللہ عزو جل نے اپنی آخری کتاب نازل کی،جس میں عقائد کی اصلاح،شرک کا ردّ،عبادات،پرانی قوموں کے قصص اور اخلاق ومعاملات کے ساتھ ساتھ اللہ عزو جل عربوں میں موجود خرابیوں کی نشاندہی بھی فرمائی اور اچھی صفات کی نشاندہی کر کے انہیں باقی رکھا گیا۔چونکہ قریش مکّہ قرآنِ کریم کے اوّلین مخاطب تھے،لہٰذا قرآن کریم کی بہت سی آیات ان کے عقائد،طور طریقوں اور اخلاق وعادات کے متعلّق نازل ہوئیں،جن میں بری باتوں کی اصلاح کی گئی۔ان آیات کی تشریح اور تفصیل سمجھنے کیلئے عربوں کی ثابت شدہ اور متفق علیہ تاریخ سے واقفیت ناگزیر ہے۔ مثلاً آیاتِ کریمہ:﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ[2]کہ مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں اضافہ کا موجب ہے۔اور﴿وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا[3]کہ یہ نیکی نہیں کہ تم گھروں کو پچھلی جانب سے آؤ،بلکہ اصل نیکی تو تقویٰ اختیار کرنا ہے۔گھروں کو ان کے دروازوں سے آؤ۔کا مفہوم اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے،جب نزولِ قرآن کے وقت عربوں کی عادات وحالات سے واقفیت حاصل کر لی جائے۔اسی طرح نزولِ قرآن کے وقت جزیرۂ عرب میں جو یہود ونصاریٰ موجود تھے،ان کے احوال وکوائف سے آشنا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اس سے ان آیات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن میں اہلِ کتاب کے اقوال واعمال پر تنقید کی گئی ہے۔اسبابِ نزول کی اہمیت اسی لئے ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے انہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قوموں کی ثابت شدہ اور متفق علیہ تاریخ کو تفسیرِ قرآن میں بہت اہمیت دی ہے اور اسے دوسرا بڑا خبری ماخذ قرار دیا ہے۔مولانا فاتحہ نظام القرآن میں لکھتے ہیں: من المأخذ ما هو أصل وإمام،ومنها ما هو كالفرع والتّبع. أما الإمام والأساس فليس إلا القرآن نفسه،وأمّا ما هو كالتّبع والفرع فذلك ثلاثة:ما تلقّته علماء الأمة من الأحاديث النبوية،وما ثبت واجتمعت الأمة عليه من أحوال الأمم،وما استحفظ من الكتب المنزلة على الأنبياء." [4] کہ بعض ماخذ اصل واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے۔اس
Flag Counter