Maktaba Wahhabi

1044 - 609
من بين المعاني.ويتبيّن لنا معنى بعض كلام الوحي القديم المشتبه المحال حسب الظاهر،فيكون دليلًا لأولي الفهم من أهل الكتاب إلى صحّة القرآن،ولنا إلى صحّة كتبهم،فيفتح باب الوفاق بيننا،وهو أقرب إلى الهداية." [1] کہ اگر تمہیں شبہ ہو کہ یہ قدیم کتب غیر محفوظ ہیں اس وجہ سے اگر قرآن کی تاویل میں ہم ان سے رجوع کریں گے تو غلطی میں پڑنے کا امکان ہے،تو یہ شبہ بالکل بجا ہے۔لیکن ہم یہ بات نہیں کہتے۔ہمارا کہنا یہ ہے کہ پہلے قرآن کو خود قرآن اور عربی زبان کی مدد سے سمجھنا چاہئے۔پھر اگر کتبِ مقدّسہ میں کوئی ایسی بات ملے جو معنیٰ اور اسلوب کے اعتبار سے قرآن سے ملتی جلتی یا اس سے واضح تعلّق رکھتی ہوئی نظر آئے تو دونوں باتوں پر تدبّر اور دونوں کے اسلوبوں کے تقابل سے:1۔قرآن کی بلاغت واضح ہوگی۔ 2۔ نیز مختلف معانی میں سے ہم جس مفہوم کو ترجیح دیں گے،اس تائیدِ مزید سے اس پر ہمارا اعتماد مضبوط ہوگا۔3۔علاوہ بریں وحی قدیم کی بعض ایسی باتوں کا مفہوم ہم پر واضح ہو جائے گا،جس کا واضح ہونا بظاہر محال نظر آتا ہے۔یہ چیز اہلِ کتاب کے اربابِ نظر کیلئے قرآن کی صداقت کی اور ہمارے لئے خود ان کی کتابوں کی صداقت کی ایک دلیل ہوگی،جس سے باہمی محبت کی راہیں بھی کھلیں گی اور یہ چیز ان کی ہدایت کیلئے بھی راہ ہموار کرے گی۔ اسی طرح ایک شبہ وہ ہے جو عیسائی عام مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے پیش کرتے ہیں اور اسے مسلمانوں کے خلاف اپنی سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ازروئے قرآن انجیل پر ایمان لانا مسلمانوں کیلئے ضروری ہے۔لہٰذا اگر قرآن کسی امر میں انجیل کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے معنیٰ یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو جھٹلاتا ہے۔اس کے بعد وہ ہم کو ان تمام لغویات وخرافات پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب میں ملا رکھی ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے نصاریٰ کا یہ شبہ ذکر کیا ہے،اور وہ اس کا لازماً جواب بھی دینا چاہتے ہوں گے،لیکن شبہے کے بعد آگے بیاض ہے،شائد مولانا کو اس کا جواب دینے کا موقع نہ مل سکا۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اس شبہے کا جواب کچھ اس طرح دیتے ہیں: ’’اس میں شبہ نہیں کہ اگر ان آیات کا وہی مطلب لیا جائے جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں تو اہلِ کتاب کیلئے مسلمانوں پر اعتراض کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔لیکن قرآنِ مجید نے جہاں جہاں اپنے آپ کو پچھلے صحیفوں کی تصدیق کرنے والا ظاہر کیا ہے،اس سے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان تمام تحریفات کا بھی تصدیق کرنے والا ہے جو توورات اور انجیل میں کی گئی ہیں،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان پیشین گوئیوں کو سچا ثابت کرنے والا ہے جو تورات اور انجیل میں ایک آخری نبی کی بعثت سے متعلّق وارد تھیں اور جن میں بعض تحریف کے باوجود اب بھی موجود ہیں۔‘‘[2] مولانا فراہی رحمہ اللہ اور عام مفسرین کا فرق مولانا فراہی رحمہ اللہ نے عام مفسرین پر تنقید کی ہے،وہ اسرائیلیات سے استفادہ کرتے ہیں،لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے خود سابقہ آسمانی صحائف کو باقاعدہ تفسیر قرآن کا ایک ماخذ قرار دیا ہے اور تفسیر نظام القرآن اور اپنی دیگر کتب میں جگہ جگہ ان سے استفادہ کرتے ہیں،مولانا فراہی رحمہ اللہ اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
Flag Counter