Maktaba Wahhabi

1057 - 609
اور انہی کی تعمیر کیلئے آیاتِ الٰہی کو بطور اینٹیں اور گارا استعمال کیا گیا۔محکمات کی تاویل کی ضرورت پیش آئی اور متشابہات سے فتنوں کی تلاش ہوئی۔‘‘[1] حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ ’سنت کی دائمی حیثیت‘ کے زیرِ عنوان فرماتے ہیں: ’’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی حکم کے الفاظ اللہ عزو جل نے قرآنِ مجید میں بیان فرمائے ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکا حکم دیں۔قرآنِ مجید میں ہر حکم کا ہونا ضروری نہیں کیونکہ اصل چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے جو دَرحقیقت اللہ عزو جل ہی کی اطاعت ہے،بلکہ اس پر بھی مستزاد یہ کہ قرآنِ مجید کلامِ الہی ہے اور ہر شخص کیلئے اسکی تحقیق ممکن نہیں پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے ہم اسے اللہ کا کلام تسلیم کرسکتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی زندگی ہمارے لئے اللہ عزو جل کی منشا کی ترجمانی اور حجّت کیوں نہیں ہوسکتی۔قطع نظر اس سے کہ وہ الفاظ کی صو رت میں ہو جیسےکلامِ الٰہی یا معنی کی صورت میں ہو جیسے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘[2] علمائے کلام کے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ رسول کی رسالت کیلئے کتاب کا نزول شرط نہیں،بلکہ شریعت کا نزول شرط ہے جسے وہ اپنی امت تک پہنچاتا ہے۔جیسا کہ شرح العقائد النّسفية اور اس کے حاشیہ میں مذکور ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو فرعون کے پاس بھیجا تاکہ اسے ایمان کی دعوت دیں،اسے رسول کے طریقہ پر چلنے کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت حاصل کریں۔اس وقت تک آپ پر تورات نازل نہیں ہوئی تھی،وہ فرعون کی ہلاکت او ربنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد نازل ہوئی۔‘‘ [3] مولانا عبدالرّزاق ملیح آبادی رحمہ اللہ ’مقدمہ فی اُصول التفسیر از ابن تیمیہ رحمہ اللہ ‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ’’تفسیر میں گمراہی کا اصل سبب اس بنیادی حقیقت کو بھول جانا ہے کہ قرآن کے مطالب وہی ہیں جو اس کے مخاطبِ اوّل نے سمجھے اور سمجھائے ہیں۔قرآن،محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور قرآن بس وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور سمجھایا ہے۔اس کے سوا جو کچھ ہے یا تو علمی وروحانی نکتے ہیں جو قلبِ مومن پر القاء ہوں اور یا پھر اقوال و آراء ہیں،اٹکل پچو باتیں ہیں،جن کے متحمل قرآنی لفظ کبھی ہوتے ہیں او رکبھی نہیں ہوتے۔لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ باتیں قرآن سے مقصود نہیں ہیں۔قرآنی مقصود صرف وہی ہے جو رسول نے سمجھا،یا سمجھایا ہے،دوسری کسی بات کو مقصودِ قرآنی کہنا ظلم و زیادتی اور افتراء على اللّٰه ہے۔‘‘[4] مذکورة الصّدر بیانا ت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ حکیم کی تفسیر کرنا،غلط نہیں بلکہ عین درست اور صحیح اصول ہے۔ نسخ القرآن بالحدیث اور مولانافراہی رحمہ اللہ پچھلی فصل میں حدیث وسنت سے نسخِ قرآن کے متعلّق مولانا فراہی رحمہ اللہ کا موقف تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے،سطور ذیل میں ان کے اس نقطۂ نظر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
Flag Counter