Maktaba Wahhabi

1063 - 609
درجِ بالا سطور سے یہ واضح ہوتا ہے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث وسنت دو الگ اصطلاحات ہیں،سنّت ان کے نزدیک قطعی ہے جبکہ حدیث ظنّی،صرف احادیث کی بناء پر کسی کو غلط نہیں کہا جا سکتا،اور حدیث کا منکر قرآن کے منکر کی طرح نہیں۔فرماتے ہیں: "والذي يهمّك(ثانيًا)هو أن تجعل بين ما نطق به القرآن وبين ما تجد في الفروع سدًّا وحاجزًا،فلا تخلطهما،فالقدر الّذي في القرآن ثابت،والذي زاد عليه مظنّة للوهم. فلا تجعل من أنكر بعض ما في الفروع كالّذي أنكر القرآن."[1] کہ ایک اور قابلِ لحاظ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سے جو کچھ ثابت ہو اس میں اور فروع سے جو کچھ معلوم ہو اس میں فرق کرنا چاہئے۔دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ قطعی ثابت ہے اور فروع میں وہم وظن کیلئے بہت گنجائش ہے۔پس اگر کوئی شخص فروع میں سے کسی بات کا منکر ہو تو وہ قرآن کے منکروں کی طرح نہیں ہو سکتا۔ مندرجہ بالااقتباسات سے یہ امرواضح ہوتاہے کہ مولانافراہی رحمہ اللہ کی نگاہ میں حدیث اورسنت کی حیثیت یکساں نہیں ہے،لیکن علمائے حدیث کی تصریحات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ان کے نزدیک حدیث وسنت یکساں طورپرلائق استدلال اور واجب التسلیم ہیں۔حجت ہونے کے اعتبارسے ان میں کوئی فرق نہیں۔اس سلسلہ میں محدثین کےبے شماراقوال موجود ہیں،اختصارکے پیش نظر ایک قول ذکر کیا جاتا ہے،عدَوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أما السنة في اللغة:الطريقة،واصطلاحًا:مرادفة للحدیث بالمعنى المتقدّم الذي هو كل ما أضیف إلى النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم . "[2] اس میں امام عدوی رحمہ اللہ نے صراحتاً حدیث وسنت کومترادف قراردیاہے۔علاوہ ازیں محدثین نےسنن یا السنۃ کے نام سے جتنی کتابیں تصنیف کی ہیں،ان میں زیادہ تر اخبار آحاد ہی بیان کی ہیں۔بطورمثال سنن اربعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ تفسیر میں صحابہ کی حکماً مرفوع روایات صحابہ کرام کے اقوال و آثار کا تفسیر میں کیامقام ہے؟ یہ ایک مستقل بحث ہے،جو پیچھے دوسرے باب میں گزر چکی ہے۔یہاں اس پہلو کی نشاندہی مقصود ہے کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جن اقوال میں عقل و رائے اور اسرائیلیات وغیرہ کا دخل نہ ہو،اربابِ تفسیر نے بالاجماع انہیں بھی حدیثِ مرفوع ہی کے حکم میں داخل کیا ہے۔ محدثين کرام رحمہ اللہ کا متفقہ فیصلہ ہے: "أن قول الصّحابي ما لا مجال للرّأي فيه ولم يعرف بالأخذ عن الإسرائيليّات حكمه حكم المرفوع." [3]
Flag Counter