Maktaba Wahhabi

1094 - 609
اس آیت میں طوفان کے بعد کشتی اور کشتی والوں کی نجات کا تذکرہ ہے،جو اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ اس سے مراد پانی کا طوفان تھا۔اسی لیے علامہ جلال الدین محلّی(864ھ)نے اس آیت کی تفسیر:الماء الکثیر طاف بهم وعلاهم فغرقوا [1] کہ پانی کی کثرت نے ان کو گھیر لیا اور ان پر غالب آ گیا تو وه غرق ہوگئے،کے الفاظ سے کی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ کو،اس واقعہ سے متعلقہ قرآن کی دوسری آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے توبھی یہ واضح ہوتا ہے کہ طوفان سے مراد پانی ہی کا طوفان ہے کیونکہ قرآن نے بقیہ تمام مقامات پر قومِ نوح کے لیے پانی ہی کے عذاب کا اثبات کیا ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ لغت میں طوفان کا لفظ ’ہوا‘ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔المعجم الوسیط میں ہے: "الطّوفان من کلّ شيء ما کان کثیرا أو عظیما من الأشياء أو الحوادث بحیث يطغى على غيره والفیضان العظیم كالذي أهل قوم نوح" [2] کہ طوفان ہر شے میں ہوتا ہے اور اس سے بڑی اور عظیم اشیاء یا حوادث مراد ہیں،اس طرح سے کہ یہ اپنے غیر پر چھا جاتا ہے۔اور اس سے مراد عظیم بہاؤ بھی ہے جیسا کہ اللہ عزو جل نے قومِ نوح کو اسی بہاؤ سے ہلاک کیا۔ طوفان کا مادہ ’ط و ف‘ہے اور اس مادے کا بنیادی معانی چکّر لگانا ہے۔اسی سے لفظ ’طواف‘ بھی نکلا ہے۔پس یہ بنیادی معنیٰ پانی اور ہوا بلکہ ہرشے کے طوفان میں پایا جاتا ہے۔اُردو زبان میں بھی سمندر میں لہروں کے بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کو طوفان کہا جاتا ہے،واضح سی بات ہے کہ یہ لفظ عربی سے ہی ماخوذ ہے۔ چوتھی مثال قرآنِ مجید نے جابجا سیدنا ابراہیم کی تعریف بیان کرتے ہوئے انہیں اللہ کا فرمانبردار اور ہر حکم میں انتہائی درجے میں اپنے رب کی تعمیل کرنے والا بتلا یا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ[3] کہ جب ابراہیم سے اُن کے ربّ نے کہا کہ فرما ں بردار ہو جا!تو کہا کہ میں ربّ العٰلمین کے سامنے فرمانبردار ہوں۔ ایک اور جگہ ذكر ہے کہ ہم نے ابراہیم کو بڑے بڑے امتحانات اورآزمائشوں سےگزارا،جن سے وہ کامیاب ہو کرگزرے۔اللہ عزو جل فرماتے ہیں: ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا[4]
Flag Counter