Maktaba Wahhabi

585 - 609
نام کے ساتھ ’المعلم‘ کا لفظ ازراہِ تواضع وانکسار یا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْءَانَ وَعَلَّمَهُ))[1] کے مطابق اتباعِ سنت میں اپنایا تھا۔[2] ابو اَحمد مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ناموں میں ابو احمد کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔مولانا نے اپنے پہلے عربی دیوان کا نام ’ديوان أبي أحمد الأنصاري‘ رکھا۔اسی طرح جب انہوں نے اپنا ايك قصیدہ مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ کو بھیجا تو اس پر عنوان ’قصيدة لأبي أحمد الأنصاري‘ لکھا۔یہ قصیدہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مطبوع دیوان میں ’في تطاول الطليان على طرابلس‘ کے عنوان سے موجود ہے۔[3] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کی کتاب ’إمعان في أقسام القرآن‘ طبع قاہرہ کے آخر میں ’ترجمة صاحب هذه الرسالة‘ کے عنوان سے جو ضمیمہ شامل کیا ہےاس میں دو جگہ ابو احمد کا ذکر کیا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ’ابو احمد‘ کو کنیت کے طور پر اختیار نہیں کیا،کیونکہ مولانا کے بیٹوں اور پوتوں میں کسی کا نام ’احمد‘ نہیں۔یہ کنیت کی طرح کا ایک قلمی نام ہے جو انہوں نے انہی نظموں کی وجہ سے حکومت کی طرف سے سی آئی ڈی مسلط کیے جانے پر توریہ کے طور پر کچھ دنوں کیلئے اختیار کر لیا تھا۔[4] ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی،ڈاکٹر بدر الدین اصلاحی کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’مولانا نے یہ نام(ابو احمد)اس وقت رکھ لیا تھا جب انہوں نے طرابلس اور بلقان کی جنگوں پر عربی میں تند وتیز نظمیں لکھیں اور انگریزی سی آئی ڈی ان کے پیچھے رہنے لگی تھی۔حکومت ان نظموں کو اڑا لینا چاہتی تھی جس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی۔‘‘[5] نسبت فراہی ’فراہی‘ مولانا کا نسبتی نام ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کواتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اصل نام بھی پس منظر میں چلا گیا۔آج کہیں مولانا کا ذکر آتا ہے تو یہی نام لیا جاتا ہے۔ علمی حلقوں میں اسکا چرچا یوں ہوا کہ مولانا اپنی تصانیف پر اپنے نام کےساتھ،خواہ وہ عبد الحمید ہو یا حمید الدین،فراہی ضرور لکھتے تھے۔عام حالات میں وہ ایسا نہ کرتے،مثلاً انکے دستخط میں کہیں فراہی نظر نہ آئے گا۔خطوط کے اختتام پر صرف حمید الدین ہوگا۔ملازمت کے ریکارڈ اور سرکاری کاغذات میں بھی کہیں فراہی نہیں ملے گا۔مگر کتابوں کی دُنیا میں وہ فراہی کے بغیر نظر نہیں آتے۔
Flag Counter