Maktaba Wahhabi

604 - 609
نہیں کی۔حیدر آباد کے دوسر ے اُمراء اورنوابوں سے بھی کوئی ارتباط نہیں رکھا۔صرف خاص خاص اہل علم تھے جن سے مولانا کا ملنا جلنا تھا۔نظام سے ملاقات کے لئے جب مختلف حلقوں سے تحریکیں ہوئیں توبادل ناخواستہ ان سے ملنے پر راضی ہوئے،لیکن اس بیزاری کے ساتھ کہ ملاقات کے موقع ہی پر ان کو یہ اطلاع دی کہ اب میں حیدرآبادسے جا رہا ہوں۔نظام اس بات کے بڑے خواہشمند تھے کہ مولانا حیدر آباد میں رہیں لیکن مولانا وہاں مزید قیام پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔جو لوگ اس زمانہ کے حیدر آباد اور اس نظام حیدر آباد سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ نظام سے اس طرح کی ملاقاتیں کسی شخص کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی تھیں،لیکن مولانا کے نزدیک اس کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب مولانا ملاقات کر کے نکلے تو غالباً سر اکبر حیدری نےمولانا سے پوچھا کہ کہیے اعلیٰ حضرت سے کس طرح باتیں ہوئیں؟ مولانا نے جواب دیا کہ جس طرح آپ سے ہوتی ہیں۔سر اکبر چوہدری نے اس پر کہا کہ اب ہم بے خوفی کا راز سمجھ گئے ہیں،جو شخص طمع نہیں رکھتا وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘ [1] دیگر خصوصیات مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتے اور اچھی خاصی تنخواہ پاتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی نہایت سادہ تھی۔مکان میں معمولی فرنیچر ہوتا۔کپڑے نہایت سادہ پہنتے۔کھانے میں بھی کسی تکلّف کے عادی نہیں تھے۔تنخواہ کا بیشتر حصہ یا تو کتابوں کی خرید اور ان کی پرتکلّف جلدوں پر خرچ ہوتا تھا یا پھر مستحقین خصوصاً غریب اہل علم اور نادار شرفا کی امداد پر۔[2] مولانا طبعی طور پر خلوت اورتنہائی کو پسند فرماتے تھے۔عام لوگوں سےان کا ملنا جلنا بہت کم تھا۔وہ اپنے شاگردوں اوراہل علم ہی کی مجلس میں بیٹھنا پسند فرماتے تھے۔گفتگو ہمیشہ علمی اور بہت مختصر کرتے تھے۔ان کی مجلس میں ہجو،غیبت اور طعن وتشنیع شروع ہوتی تو اس کو مذہبی اورعلمی رُخ کی طرف موڑ دیتے،گویا بلا ارادہ بات سے بات پیدا ہوگئی ہے۔[3] مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کی صحبت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سب سے زیادہ خاص چیز جو میں نے مولانا میں محسوس کی یہ کہ ان کا وہ اثر تھا جو ان کی صحبت میں بیٹھنے والے پر پڑتا تھا۔آدمی ان کے پاس بیٹھ کر فی الواقع دنیا اور دُنیا کی تمام دلچسپیاں بھول جاتا تھا۔خدا کا بھروسہ طبیعت پر اس قدر غالب آجاتاکہ جن مشکلات سے ابھی گردن ٹوٹی جاتی تھی ان کے پاس بیٹھتے ہی ایسا محسوس ہونے لگتا کہ وہ پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتیں۔خدا کی محبت اور آخرت کی طلب کا دل میں ایسا جوش اُبھرتا کہ آدمی کو اپنی غفلت کی ساری زندگی سے نفرت ہوجاتی۔‘‘[4] مولانا کی زندگی کی ایک خاصیت یہ تھی کہ آپ نے سچ کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اورجھوٹ کواپنی زندگی میں کبھی بھی جگہ نہیں دی۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں: ’’سچائی اور صبر کی عادت مولانا میں ابتدا سے نہایت پختہ تھی۔سختیوں اورتکلیفوں کو برادشت کرنے اور ہر موقع پر سچ بولنے میں انہوں نے اس وقت بھی کمزوری نہیں دکھائی جب وہ ذہنی اورعلمی اعتبار سے ابھی خام تھے۔وہ فرمایا کرتے تھے کہ جن مواقع
Flag Counter