Maktaba Wahhabi

616 - 609
سیرۃ النعمان،الفاروق،سفرنامہ،الغزالی،علم الکلام،الکلام،سوانح مولانائے روم،موازنہ انیس ودبیر،شعر العجم،مقالات شبلی،مضامین عالمگیر،سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،مجموعۂ کلام اُردو،یہ تمام تصنیفات اُردو زبان میں ہیں۔عربی میں إسكات المعتدي،بدء الإسلام،الجزية،النقد على التمدّن الإسلامي اور بعض مضامین ہیں جو مصری رسالوں میں لکھے۔فارسی میں دیوان شبلی،دستہ گل،بوئے گل اور بعض خطوط یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ مولانا کا کوئی سلسلہ تصنیف مکمل نہیں ہوا۔نامورانِ اسلام کے سلسلہ میں صرف المامون اور الفاروق مرتب ہو سکی۔علمِ کلام کے سلسلہ میں علم الکلام،الکلام،الغزالی اور سوانح مولوی روم تصنیف ہوئی۔شعر العجم کی پانچ جلدوں میں سے چار جلدیں چھپ سکیں،پانچویں جلد کے اجزاء بحالت مسودہ موجود ہیں۔سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناتمامی کا داغ تو اخیر وقت تک ان کے دل میں رہا،اپنی زندگی میں دوستوں سے فرماتے تھے کہ ’’سیرت کو تمام ہی کرنا ہے،گو جان دے کر ہی سہی۔‘‘ آخر اسی مقولہ کے مطابق اسی دُھن میں اس بزرگ نے جان دے دی،رحمه اللّٰه رحمة واسعة.‘‘ [1] مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ ایک حساس اور اثر پذیر شخص تھے اور اسی کے باعث ان کے ذہنی رجحانات میں عہد بہ عہد تغیر رونما ہوتا تھا۔بعض وجوہ کی بناء پر وہ سر سید احمد خان کو پسند کرتے تھے لیکن کچھ معاملات میں ان سے بیزاری کا اظہار بھی ان کے ذہنی رجحانات میں تبدیلیوں کا ثبوت ہے۔ان کی زندگی پر ان کی اسی حساس طبیعت کے باعث طرح طرح کے اثرات مرتب ہوئے،لیکن سب سے زیادہ گہرا اور پائیدار تاثر ان کی شخصیت پر مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی اور سر سید احمد خان ہی کا مرتّب ہوا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سب سے بڑا نام مولانا شبلی رحمہ اللہ کا ہے۔ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ان دونوں کے آپس میں استادی شاگردی کے تعلق کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شبلی نے فراہی کو بالکل نجی طور پر پڑھایا،درسیات کی تکمیل کے بعد جب تک عملی زندگی کی کوئی مصروفیت شروع نہیں ہوئی۔شبلی کنبے اور قرابت کے لڑکوں کو پڑھاتے تھے ان پڑھنے والوں میں سب سے نمایاں نام مولانافراہی کا ہے۔شبلی نےاپنے نامور اساتذہ کی نگرانی میں درس نظامیہ کی تکمیل کی اور وہی متداول علوم انہوں نے مولانا فراہی کو پڑھائے۔عربی اوراسلامی علوم کی بنیادی تعلیم تقریباً مکمل کرائیں۔شبلی خود ایک ذہین اورطباع انسان تھے ان کو شاگرد بھی ویسا ہی ذہین اورطباع ملا۔ شبلی کی تعلیم نے مولانا کو ایک عالم دین کے قالب میں ڈھالا اور وہ بنیادیں استوار کیں جن پرفکرِ فراہی کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔مولانا فراہی شبلی کے ساختہ پر داختہ ہیں۔شبلی کی شاگردی میں رہ کر مولانا نے جو کچھ جس طرح پڑھا اس نے بڑی حد تک مولانا کی آئندہ زندگی کی راہیں متعین کردیں۔‘‘[2] مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ [1848۔1886ء] نام عبد الحی اور کنیت ابو الحسنات ہے،سلسلۂ نسب اس طرح ہے:عبد الحی بن عبد الحلیم بن امین اللہ بن محمد اکبر بن ابو الرحیم فرنگی
Flag Counter