Maktaba Wahhabi

619 - 609
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنی خود نوشت میں مولانا شبلی رحمہ اللہ اور فیض الحسن سہارنپوری رحمہ اللہ کے ساتھ استاد کی حیثیت سے مولانا عبد الحی فرنگی محلّی کا بھی ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں: "وقرأت أكثر كتب الدّرس النّظامي على ابن عمّتنا العلامة شبلي ثم تلمّذت على بعض مشاهير علماء الهند مثل مولانا عبد الحيّ الفرنجي محلي في لكنو والأديب الشّهير مولانا فيض الحسن السهارنفوري في بلده لاهور." [1] ’’میں نے درس نظامی کی اکثر کتابیں اپنے پھوپھی زاد بھائی علامہ شبلی سے پڑھیں۔اس کے بعد ہندوستان کے بعض مشہور علماء مثلاً مولانا عبدا لحی فرنگی محلّی کی لکھنؤ میں اور نامور ادیب مولانا فیض الحسن سہانپوری کی لاہور میں شاگردی اختیار کی۔‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولاناشبلی سے کسبِ فیض کرنے کے بعد مولانا نے وقت کے مشہور اساتذہ کے حلقہ ہائے درس سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا۔اس زمانہ میں مولانا ابو الحسنات عبد الحی لکھنوی فرنگی محلّی کے حلقہ درس کی بڑی شہرت تہی۔چنانچہ فقہ کی تحصیل کیلئے مولانا نے کچھ مدت تک مولانا عبد الحی مرحوم کے حلقۂ درس میں شرکت کی،لیکن مولانا کی طبیعت ابتدا ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور ان کے اس ذوق کو مولانا شبلی کے فیضِ صحبت نے اور زیادہ اُبھار دیا تھا اس وجہ سے مولانا لکھنو میں کچھ زیادہ نہیں ٹکے۔‘‘[2] مولانا ارشاد حسین رامپوری رحمہ اللہ [متوفیٰ 1893ء] ارشاد حسین بن احمد حسین بن محیی الدین بن فیض احمد بن کمال الدین بن درویش احمد بن زین بن یحییٰ بن احمد عمری سرہندی رامپوری۔ہندوستان کے مشہور فقہاء میں سے ایک تھے۔مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ(1624ء)کی نسل میں سے تھے۔ رامپور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ملانواب بن سعد اللہ افغانی رحمہ اللہ،جنہوں نے بعد میں مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کر لی تھی،کے پاس زانوئے تلمّذ طے کیا اور لمبا عرصہ ان سے استفادہ کیا حتیٰ کہ معقولات ومنقولات دونوں میں اپنے ساتھیوں اور ہم عصروں پر فائق ہوگئے۔پھر دہلی کی طرف سفر کیا اور وہاں شیخ احمد سعید مجدّدی دہلوی رحمہ اللہ(1277ھ)سے علم حدیث میں مہارت حاصل کی۔ پھر واپس رامپور لوٹ آئے اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے حتیٰ کہ وہاں کے مفتی مقرر ہوئے۔رامپور کے علماء میں ان کی بڑی قدر ومنزلت تھی۔متعدّد کتب تصنیف کیں،جن میں مشہور کتاب انتصار الحق ہے۔[3] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ مولانا شبلی رحمہ اللہ کی روئیدادِ سفر میں لکھتے ہیں: یہاں اس وقت دو باکمال اپنے اپنے فن میں یکتائے روزگار تھے،معقولات میں سلسلۂ خیر آباد کے خاتم مولانا عبد الحق خیر آبادی رحمہ اللہ اور فقہ میں مولانا ارشاد حسین مجدّدی رحمہ اللہ .... علامہ مرحوم کو حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رحمہ اللہ کی وسعتِ نظر،اصابت رائے اور مجتہدانہ ژرف نگاہی کا اعتراف ہمیشہ رہا اور اکثر بر سبیلِ تذکرہ ان کے کامل فہم وادراک اور قوتِ تفقّہ کے واقعات بیان فرماتے ...
Flag Counter