Maktaba Wahhabi

626 - 609
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس زمانہ میں(غالباً 1904ء میں)جب اس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے سواحلِ عرب اور خلیجِ فارس کا سیاسی بحری سفر کیا تھا اور سواحل عرب کےشیوخ اور اُمراء کو اپنی ملاقات کے لئے جمع کیا تھا تو مولانا فراہی کا انتخاب ترجمان کی حیثیت سے ہوا تھا،وہ اس سفر میں لارڈ کرزن کے ساتھ تھے۔اور عرب سرداروں کے سامنے لارڈ کرزن کی طرف سے جو عربی تقریر پڑھی گئی تھی وہ انہی کی لکھی ہوئی تھی۔‘‘[1] مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’غالباً اسی دوران(1900ء)میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے عرب سرداروں سے سیاسی تعلقات قائم کرنے کے لئے سواحلِ عرب اورخلیجِ فارس کا سفر کیا۔اس سفر میں ان کو ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو بیک وقت عربی اورانگریزی دونوں زبانوں کا ماہرہو،اس کے لئے مولانا کا انتخاب ہوا۔مولانا اگرچہ اس وفد میں شامل ہونے کے لئے راضی نہ تھے لیکن غالباً مولاناشبلی کے اصرار پر بلکہ ان کے دباؤ سے مجبور ہو کر ان کو راضی ہونا پڑا۔اس قسم کا واقعہ اس زمانہ میں کسی شخص کے لئے بھی فخر اورعزت کا ذریعہ ہو سکتا تھا اوراس سے دینوی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے تھے،لیکن مولانا مرحوم نے حکومت کی خواہش کے باوجود نہ تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ہی اس واقعہ کو اپنے لیے کوئی فخر وعزت کی بات سمجھا،بلکہ جہاں تک میرا اَندازہ ہے،وہ اس کو اپنی ایک سیاسی غلطی سمجھتے تھے اوراس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے اس کا ذکر بھی کرے۔‘‘[2] علی گڑھ میں قیام مولانا فراہی رحمہ اللہ مدرسۃ الاسلام کراچی کی ملازمت سے مطمئن نہ تھے،اس کی ایک بڑی وجہ شائد وہاں کے کام کی نوعیت تھی۔ہائی سکول کے لڑکوں کوپڑھانا مولانا جیسے صاحبِ علم وفضل کے لئے ایک آزمائش تھی جیسے بامر مجبوری گوارا تو کیا جا سکتا تھا لیکن اس پر قناعت کر کے بیٹھ رہنا ممکن نہیں تھا۔چنانچہ جوں ہی متبادل صورت سامنے آئی،مولانا نے کراچی کو خیر آباد کہا اور علی گڑھ آگئے۔مولانا نے اپنی مختصر خود نوشت میں کراچی کی ملازمت کا ذکر تک نہیں کیا حالانکہ اس کی مدت مقابلتاً سب سے طویل ہے،جبکہ علی گڑھ،الٰہ آباد اور حیدر آباد کا باقاعدہ انہوں نے ذکر کیا ہے۔[3] مولانا فراہی رحمہ اللہ کو ایم اے او کالج علی گڑھ میں ملازمت مولانا شبلی کی کوشش اور سفارش سے ملی،بلکہ اس کے لئے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ان سے خود مطالبہ کیا تھا،۔سید سلیمان ندوی حیاتِ شبلی میں فرماتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین صاحب مرحوم کو علی گڑھ کالج کی اسسٹنٹ پروفیسری مولانا ہی کی سفارش سے ملی،دار العلوم حیدر آباد کی پرنسپلی پر ان کا تقرر مولانا ہی کی کوشش سے ہوا۔‘‘[4]
Flag Counter