Maktaba Wahhabi

628 - 609
’’علی گڑھ میں بھی وہ زیادہ دِن نہیں رہے،بہرحال جتنے دن بھی رہے اپنے علمی کاروبار میں مصروف رہے۔ہارویز صاحب مولانا سے اپنی عربی کی تکمیل کرتے تھے اور مولانا ان سے عبرانی سیکھتے تھے اور ساتھ ہی قرآن پاک کی تفسیر اور تفسیر کے مقدمہ کے اجزاء کی تالیف کا کام جاری تھا۔‘‘[1] نواب حبیب الرحمٰن خان شیروانی(1370ھ)لکھتے ہیں: ’’مجھ کو مولانا سے دیرینہ نیاز حاصل تھا،ابتدائی ملاقات کا ذریعہ علامہ شبلی مرحوم تھے۔علی گڑھ کی پروفیسری کے زمانہ میں ملا،پھر حیدر آباد میں۔علی گڑھ کے دَور میں بھی تدبر قرآ نی کا شرف(شغف)جاری تھا۔روزانہ تین بجے شب سے صبح نوبجے تک اس میں وقت صرف کرتے تھے۔ملاقات کے وقت نتائجِ تحقیق بیان فرما تے،اس زمانہ میں دیگر کتبِ سماوی کا اور اس کی مدد سے مطالبِ قرآنیہ کا حل خاص کر پیشِ نظر تھا۔اس حالت میں علی گڑھ چھوڑا۔‘‘[2] ندوہ میں آمد مولانا شبلی رحمہ اللہ شروع ہی سے مولانا فراہی رحمہ اللہ سے اصرار کر رہے تھے کہ وہ ان کے پاس ندوہ آکر رہیں۔ایک خط میں انہیں ندوہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ندوہ میں میرا بالا خانہ خالی ہے،آؤ اطمینان وتنہائی میں تفسیر کا درس دو،اگر جی چاہے ورنہ اس کی بھی ضرورت نہیں۔البتہ ’الدروس الاوّلیہ‘ کا ایک سبق پڑھا دیا کرو،خدا نے تم کو بلند پایہ بنایا تو بلند خیال بھی بننا چاہیے۔‘‘[3] لہٰذا مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بہت زیادہ اصرار پر مولانا فراہی رحمہ اللہ ندوہ چلے آئے جس سے شبلی رحمہ اللہ کوبہت زیادہ خوشی ہوئی جس کا ذکر انہوں نے الندوہ میں بھی کیا: ’’مولوی عبد الحمید صاحب بی اے مصنف نظام القرآن،جن کے بعض مضامین النّدوہ کے ذریعے سے روشناس ہو چکے ہیں،جس پایہ کے شخص ہیں،’ندوہ‘ کو اسی پایہ کے شخص درکار ہیں۔انہوں نے حال میں پورے ایک مہینہ ’ندوہ‘ رہ کر الدروس الاوّلیہ،جو علومِ جدیدہ کی ایک بسیط تصنیف ہے،کا دَرس دیا ہے،اس خدمت کو ان کےسوا اور کوئی شخص انجام نہیں دے سکتاتھا۔‘‘[4] علی گڑھ میں قیام کے دوران مولانا فراہی رحمہ اللہ کے سامنے تجویز رکھی گئی کہ سرسید کی تفسیر قرآن کا عربی ترجمہ ہو جائے تو بہت مفید رہے گا۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’غالباً اسی زمانہ میں سرسید مرحوم کی تفسیر قرآن کا عربی میں ترجمہ قرآن کرانے کا خیال پیدا ہوا اور اس کام کے لئے لوگوں کی نظر انتخاب مولانا پر پڑی،لیکن جب مولانا کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ ’’میں اس اشاعتِ معصیت میں حصہ نہیں لینا چاہتا۔‘‘ مولانا کے اس جواب کے بعد پھر کوئی شخص ان کے سامنے یہ تجویز لانے کی جرات نہ کر سکا،بلکہ غالباً مولانا کے اس
Flag Counter