Maktaba Wahhabi

629 - 609
جواب کے بعد تفسیر کے عربی ترجمے کی تجویز ہی سرے سے ختم ہوگئی۔‘‘[1] میور سنٹرل کالج الٰہ آباد سنٹرل میور کالج الٰہ آباد کے شعبہ عربی میں ایک پروفیسر کی ریٹائرمنٹ پر جو جگہ خالی ہوئی،اسے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے پہلے عارضی اور بعض میں مستقل طور پر پر کر لیا۔یکم جون 1908ء کو مولانا نے میور کالج میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔مولانا کی تنخواہ الٰہ آباد میں وہی 200 روپے رہی جو علی گڑھ میں تھی۔یہاں مولانا 1914ء تک تقریباً 6 سال رہے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین صاحب علی گڑھ میں دو سال کے قریب رہے،اس کے بعد 1908ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے،کالج کے درس کے علاوہ بقیہ اوقات وہ تالیف وتصنیف میں صرف کرتے۔‘‘[2] مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’چند سال علی گڑھ میں قیام کے بعد مولانا الٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔‘‘[3] فرائض منصبی کی ادائیگی سے جو وقت بچتا تھا،اس کو حسبِ معمول لکھنے پڑھنے میں صرف کرتے تھے،خاص کر تفسیر نظام القرآن اور قرآن سے متعلق دوسری کتابوں کے لکھنے کا کام جاری رہا۔یہیں انہوں نے تفسیر سورۂ تحریم شائع کی اور سیدنا سلیمان کے مواعظ کا عبرانی سے فارسی نظم میں ترجمہ کیا،جو بعد میں خرد نامہ کے نام سے شائع ہوا۔[4] قیامِ الٰہ آباد کے زمانے ہی میں مصر کے معروف عالم رشید رضا کو مولانا کی چند مطبوعہ کتب بھیجی گئیں۔مارچ 1909ء کے المنار میں علامہ رشید رضا(1935ء)نے ایک تقریظ لکھی جس میں مصنف کو بہت داد دی۔[5] 1911ء میں قیامِ الٰہ آباد کے زمانے میں مولانا کے والد حاجی عبد الکریم کا انتقال پھریہا میں ہوا۔[6] اسی زمانے میں مولانا مشرقی علوم کی عربی کمیٹی اور عربی،فارسی،اُردو اور ہندی کے امتحانی بورڈکے رُکن مقرر ہوئے۔[7] حيدر آباد كا قيام آپ الٰہ آباد ہی میں تھے کہ آپ کو دار العلوم حیدر آباد کی طرف سے پرنسپل کے عہدے کی پیشکش ہوئی۔دار العلوم حیدر آباد کے نمایاں ناموں میں سے ایک نام مولانا شبلی رحمہ اللہ کا تھا اور ان کا خیال تھا کہ دار العلوم حیدر آباد کو عربی زبان کی یونیورسٹی بنایا جائے لہٰذا اِس عہدے کا اہل مولانا فراہی رحمہ اللہ سے بڑھ کر اور کو ن ہو سکتا تھا۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
Flag Counter