Maktaba Wahhabi

630 - 609
’’اس اسکیم کے مطابق دار العلوم کو چلانے کےلیے مولانا حمید الدین صاحب کا انتخاب ہوا اور وہ اس کے صدر(پرنسپل)بنائے گئے اور 1914ء کے اوائل میں الٰہ آباد سے حیدر آباد جاکر اس نئی مشرقی یونیورسٹی کا خاکہ بنانے میں مصروف ہوئے۔‘‘[1] الٰہ آباد میں یا اس سے پہلے کی ملازمتوں میں تنخواہ جامد تھی،یہاں مولانا کو سالانہ اضافہ کے ساتھ باقاعدہ اسکیل دیا گیا جو 500 سے شروع ہو کر 50 روپے سالانہ اضافہ کے بعد 1000 روپے پر ختم ہوتا ہے۔[2] مولانا شبلی رحمہ اللہ اس وقت سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جلد لکھ رہے تھے،یہود ونصاریٰ اور اہل کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآن پاک کے استدلالات میں وہ برابر اپنے بھائی سے مشورہ لیتے تھے،سیرت جلد اول کے مقدمہ میں سیدنا اسمٰعیل کی سکونت اور قربانی کے متعلق جو باب ہے،اس کا مواد مولانا فراہی رحمہ اللہ ہی نے بہم پہنچایا تھا،جس کو آئندہ چل کر مولانا نے بڑھا کر اور پھر مزید استقصاء کر کے الرأي الصحيح في من هو الذبيح کے نام سے الگ شائع کر دیا۔[3] مولانا شبلی کی وفات مولانا فراہی رحمہ اللہ کو حیدر آباد پہنچے ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ان کے مربّی اور راہنما مولانا شبلی رحمہ اللہ دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اس سانحہ کو یوں لکھتے ہیں: ’’مولانا شبلی نے 18 نومبر 1914ء کو انتقال کیا،مولانا حمید الدین صاحب وفات سے ایک دن اور میں دو دن پہلے پہنچا تھا،مجھے حکم دیا:’’سب چھوڑ کر سیرت!‘‘ مولانا حمید الدین جب پہنچے تو مصنفِ سیرت کی مقدس زبان خاموش ہو چکی تھی،آنکھیں کھول کر بھائی کی طرف دیکھا اور چپ ہوگئے،اس خاموش نگاہِ حسرت میں وصیتوں اور فرمائشوں کے ہزاروں معنی پوشیدہ تھے۔‘‘[4] مولانا شبلی رحمہ اللہ کی وفات کےبعد مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ان کے شاگروں کا ایک حلقہ ’جماعتِ نعمانیہ‘ کے نام سے بنایا،جس کے ایک رکن سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ بھی تھے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں: ’’اس موقع پر ہم جان نثاروں میں صاحبِ ہوش وہی تھے،ماتم کےآنسو ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے تیسرے دن جب مولانا شبلی مرحوم کے چند تلامذہ جمع ہوگئے تھے،ان کی ایک مختصر سی ’جماعتِ نعمانیہ‘بنائی،جس نے اپنا یہ مقصد قرار دیا کہ وہ مولانا شبلی کے ادھورے کاموں کی تکمیل کرے گی۔مدرسہ سرائے میر کی صدارت مدرسین مولانا شبلی صاحب متکلّم ندوی کے سپرد ہوئی۔اس کی نظامت مولانا مسعود علی صاحب ندوی نے اپنے سر لی،دار المصنّفین کی تشکیل وتاسیس کے لیے اسی جماعت کے ارکان نے ماہوار چندے لکھوائے۔‘‘[5]
Flag Counter