Maktaba Wahhabi

633 - 609
مشاغلِ علمیہ ہیں جن کے لئے ہمہ تن مصروف ہونے کی ضرورت ہے،اس لیے التماس ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو مجھے خدمت سے سبکدوش فرما دیا جائے۔امید ہےکہ مجھے ہفتہ عشرہ سے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے گا۔‘‘[1] حیدر آباد میں مولانا اپنے علمی وتعلیمی فرائض ومشاغل کے سوا ہر چیز سے نہ صرف بالکل الگ تھلگ رہے بلکہ وہاں کے حالات سے نہایت سخت بیزار بھی رہے۔اپنے کئی سال کے زمانہ قیام میں نظام حیدر آباد سے ان کی خواہش کے باوجود ایک مرتبہ بھی ملاقات نہیں کی۔حیدر آباد کے دوسرے امراء اور نوابوں سے بھی کوئی ارتباط نہیں رکھا۔صرف خاص خاص اہل علم تھے جن سے مولانا کا ملنا جلنا تھا۔نظام سے ملاقات کیلئے جب مختلف حلقوں سے تحریکیں ہوئیں تو بادل ناخواستہ ان سے ملنے پر راضی ہوئے،لیکن اس بیزاری کے ساتھ کہ ملاقات کے موقع ہی پر ان کو یہ اطلاع دی کہ ’’اب میں حیدر آباد سے جارہا ہوں۔‘‘ نظام اس بات کے بڑے خواہشمند تھے کہ مولانا حیدر آباد میں رہیں،لیکن مولانا وہاں مزید قیام پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔[2] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ مولانا کے قیامِ حید ر آباد کے حالات کا ذکر کر تے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حید ر آباد میں جب تک وہ رہے بے ہمہ اور باہمہ رہے۔علم کی قدر ومنزلت اور بے نیازی کو انہوں نے پوری طرح نباہا اور جو لوگ ان سے ذاتی طور پر واقف تھے او ران کا حلقہ بہت محدود تھا،ان پر مولانا کی جدائی بڑی شاق گزری۔بایں ہمہ وہ ان کے رنگ طبع کو دیکھ کر ان کو مجبور نہ کر سکے۔مولانا کو حید ر آباد سے نہ کوئی پنشن مل سکی،نہ کوئی وظیفہ ہوا اور نہ ہی کسی اور قسم کی مالی امداد کے پانے کی انہوں نےکوشش کی۔چونکہ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی سے حیدر آباد بھیجے گئے تھے،اس لیے الٰہ آباد یونیورسٹی کی طرف سے کل تیس بتیس روپے کی انہیں پنشن ملی۔‘‘[3] مدرسہ الاصلاح اواخر اگست یا اوائل ستمبر 1919ء میں مولانا فراہی رحمہ اللہ وطن واپس پہنچے۔اپنے آبائی گاؤں پھریہا میں قیام کیا،جو خاندان کے لوگوں کا مستقل مسکن تھا۔ان کے چھوٹے بھائی مولوی رشید الدین کے علاوہ دونوں بیٹے جوان ہو کر گھر گر ہستی اور زمینداری دیکھنے کے لئے کافی تھے،اس لئے مولانا کو ادھر سے بے فکری تھی۔[4] وطن واپسی کے بعد کی زندگی کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد مولانا اپنے وطن میں آگئے،اب ان کو ذرا فرصت ملی کہ وہ مدرسۃ الاصلاح اوردارُ المصنفین کی طرف متوجہ ہوں،جن کے انتظامی اور علمی وتعلیمی معاملات ابتدا ہی سے براہِ راست مولانا فراہی سے متعلق تھے۔‘‘[5] مدرسۃ الاصلاح کی ابتداء اور اس کے ارتقائی مدارج کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ مولوی محمد شفیع نامی ایک نیک اور متقی بزرگ نے بعض مقامی علماء،علم دوست اور دیندار مسلمان زمینداروں(جن میں مولانا شبلی اور فراہی رحمہ اللہ کے خاندانی بزرگ شامل تھے)
Flag Counter