Maktaba Wahhabi

641 - 609
’’یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب مرحوم ومغفور کےشاگردہیں۔فی الواقع وہ اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے۔اللہ عزو جل ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔‘‘[1] مولانافراہی رحمہ اللہ نے آخری زندگی میں جس شخص کی تعلیم وتربیت پر سب سے زیادہ توجہ دی وہ شخصیت مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ ہی کی ہے،اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے علمی ورثہ کی بھر پور طریقے سے حفاظت کی ہے،مدرسۃ الاصلاح پر جس طرح انہوں نے اپنی پوری زندگی قربان کی،اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔مرض الموت میں جب حالت ذرا نازک ہونے لگی تو گھر کے لوگ ان کے مکان پر لے جانے کے لئے مصر ہوئے،لیکن اُنہوں نے گھر جانے سے انکار کر دیا،اور بالآخر وہیں 9 اَکتوبر 1958ء میں وفات پائی۔[2] مولوی ضیاء الدین اصلاحی(ایڈیٹر ماہنامہ معارف وڈائریکٹر دار المصنّفین اعظم گڑھ)لکھتے ہیں: ’’کہنا چاہیے کہ فراہی اسکول کےسب سے بڑے اسکالر وہی تھے اور مولانا فراہی کے طرز پر تفسیر کو سب سے زیادہ وہی سمجھتے تھے،لیکن آہ 9 اَکتوبر 1958ء بروز پنج شنبہ ٹھیک پانچ بجے صبح اس مردِ حق آگاہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔‘‘[3] امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ [1904۔1997ء] امین احسن اصلاحی 1904ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں موضع بمہور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وتربیت گاؤں کے دو مکتبوں میں ہوئی۔سرکاری مکتب میں مولوی بشیر احمد جبکہ دینی مکتب میں مولوی فصیح احمد ان کے استاد تھے۔یہاں سے انہوں نے قرآنِ مجید اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ جب دس سال کے ہوئے تو انے رشتہ کے چچا مولانا شبلی متکلّم ندوی(مہتمم مدرسۃ الاصلاح)کے ایماء پر امین احسن کے والد نے 9جنوری 1915ء کو انہیں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں داخل کرا دیا۔انہیں مکتب کے آخری(تیسرے)درجے میں بٹھایا گیا۔[4] مدرسہ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے آٹھ سال میں پورے نصاب کی تعلیم مکمل کی۔اس عرصے میں انہوں نے عربی زبان،قرآن،حدیث،فقہ اور کلامی علوم کی تحصیل کی۔اُردو،فارسی،انگریزی اور بالخصوص عربی میں اتنی دسترس حاصل کی کہ آئندہ تحقیق وتدبّر کی راہیں خود طے کر سکیں۔مولانا امین اصلاحی دورانِ تعلیم ایک ذہین اور قابل طالب علم کی حیثیت سے نمایاں رہے۔[5]اس دوران انہیں مولانا عبد الرحمن نگرامی رحمہ اللہ جیسے محقق استاد سے کسبِ فیض کرنے کا موقع ملا۔مولانا اصلاحی کے مطابق مولانا نگرامی رحمہ اللہ نے ان کے اندر عربی سیکھنے کا صحیح شوق اور ولولہ پیدا کیا ورنہ وہ ان علوم سے بد دل ہوتے جا رہے تھے۔[6] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے بقول مولانا نگرامی رحمہ اللہ نے چار برس تک مدرسہ سرائے میر میں رہ کر زیر تربیت چند اچھے لڑکے پیدا کیے جن
Flag Counter