Maktaba Wahhabi

644 - 609
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ [1884۔1953ء] سلیمان ندوی کی ولادت بروز جمعہ 22 نومبر 1884ء میں دسنہ نامی گاؤں،ضلع پٹنہ،بہار میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک معلّم خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی اکھدوی سے پائی۔اردو اور فارسی کی ابتدائی کتابیں ختم کرنے کے بعد عربی میں میزان ومنشعب اپنے بڑی بھائی مولوی ابو حبیب صاحب سے پڑھی،خانقاہ مجیبی میں رہ کر مولانا محی الدین(1947ء)سے استفادہ کیا۔شاہ سلیمان پھلواری(1354ء)سے منطق کے ابتدائی اسباق پڑھے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے،یہاں سات سال رہ کر تعلیم کی تکمیل کی۔طالب علمی کے زمانہ میں متانت وسنجیدگی،تہذیب وشائستگی،مہر محبت اور خلق ومروت میں ممتاز تھے۔دینی علوم کے ساتھ شعر وسخن سازی کا ذوق بھی ابتداء سے تھا۔[1] سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی ہمہ گیر شخصیت کا ایک نمایاں پہلو،ان کی زندگی کا ایک روشن باب ان کی صحافت ہے۔سید صاحب ماہنامہ ’الندوہ‘ لکھنؤ کے سب ایڈیٹر،ہفت روزہ ’الہلال‘ کلکتہ کے ادارۂ تحریر کے رُکن اور ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ کے ایڈیٹر رہے۔[2]سید صاحب رحمہ اللہ ایک بلند پایہ ادیب،نقاد اور مبصّر ہونے کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے مصنف بھی تھے،آپ نے الندوہ،الہلال اور معارف میں علمی ودینی،مذہبی وتاریخی،تحقیقی وتنقیدی اور ادبی مقالات لکھ کر بر صغیر کے نامور اہل علم وقلم سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔سید صاحب مرحوم نے مختلف موضوعات پر جو کتابیں لکھیں وہ حسبِ ذیل ہیں: لغاتِ جدیدہ،ارض القرآن،سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،سیرتِ عائشہ،خطباتِ مدراس،عرب وہند کے تعلقات،عربوں کی جہاز رانی،خیام،سیر افغانستان،نقوشِ سلیمانی،رحمتِ عالم،برید فرنگ،مسلمان خواتین کی بہادری،حیاتِ شبلی،یادِ رفتگاں،مقالاتِ سلیمان،مکاتیبِ سلیمان،مکتوباتِ سلیمان[3] علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علومِ اسلامیہ کا بحر ذخار تھے۔تمام علوم پر انہیں یکساں قدرت حاصل تھی۔تحقیق وتدقیق میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ان کے علمی تبحّر اور صاحبِ علم وفضل اور جامع الکمالات ہونے اور ان کی تحقیقاتِ عالیہ کا اعتراف بر صغیر کے نامور اہل علم اور صاحبِ قلم کے علاوہ مغربی مستشرقین نے بھی کیا ہے۔مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ سید صاحب کے انتقال پر لکھتے ہیں: ’’میری نگاہ میں اس دَور کے تمام اہل علم واہل نظر میں کوئی شخصیت علم وفن کے گوناگوں شعبوں کی ایسی جامع نظر نہیں آتی جیسی سید صاحب کی تھی،سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔وہ بیک وقت مفسربھی تھے اور محدث بھی،فقیہ بھی تھے اور مؤرّخ بھی،محقّق بھی تھے اور مبصّر بھی،دانش وَر بھی تھے اور نقاد بھی،معلّم بھی تھے اور متکلّم بھی،فلسفی بھی تھے اور ادیب بھی،خطیب بھی تھے اور مقرر بھی،صوفی بھی تھے اور شاعر بھی،مصنف بھی تھے اور صحافی بھی اور سب سے بڑھ کر بہت بڑے سیرت نگار بھی تھے۔‘‘[4]
Flag Counter