Maktaba Wahhabi

653 - 609
جو بار بار اتنی کثیر تعداد میں چھپی ہے۔یہ کتاب مدرسۃ الاصلاح اورکئی دوسرے مدارس کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کے پہلے ایڈیشن میں مولانا اختر احسن اصلاحی اس کے دیپاچہ میں لکھتے ہیں: ’’طبع اوّل کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعض مباحث کو تشنہ خیال کر کے اس میں جگہ جگہ ضروری اضافہ فرمایا تھا،لیکن مصنف رحمہ اللہ کی زندگی میں ان اضافو ں کے ساتھ کتاب کو چھاپنے کی نوبت نہیں آئی،عربی مدارس کی ضرورت کا خیال کرکےیہ کتاب اب ان اضافوں کے ساتھ شائع کی جاتی ہے۔اہلِ علم اس کو دیکھ کر خود اندازہ کر سکیں گے کہ مصنف رحمہ اللہ کی نظر ثانی اوراضافہ وترمیم کے بعد اب پہلی حالت سے اس نے ایک بالکل مختلف صورت اختیار کر لی ہے۔‘‘[1] اس کتاب میں مولانا نے ابتدائی نحو وصرف کو سائنٹیفک اور آسان انداز میں مرتب کر دیا ہے۔قدیم کتب کی صورتحال یہ ہے کہ ان میں مدت دراز تک خشک اور پیچیدہ صرف ونحو کے قواعد رٹنے ہوتے ہیں پھر کہیں جاکر ادب کی نوبت آتی ہے،جبکہ اس کتاب میں اعراب کی بنیاد اختلافِ حالات پر رکھی گئی ہے نہ کہ عوامل پر۔اس سے اولاً تو سو عاملوں سے نجات مل جاتی ہے اور ثانیاً فعل چونکہ اختلافِ حالات نہ رکھنے کی وجہ سے معرب نہیں رہ جاتا اس لیے فعل کی طولا نی بحث میں پڑنےسے پہلے ہی اعراب کی تعلیم دی جاسکتی ہے اوراس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ابتداء ہی سے مشق عبارت ہو جاتی ہے،پھر جب فعل شروع ہوتا ہے تو چونکہ اعراب سے واقفیت ہو چکی ہے،فوراً اس کا استعمال بھی ہونے لگتا ہے اورفعل کے تمام ہوتے ہوتے ادب میں کافی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک اہم بات جو اس کتاب میں ملحوظ رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تعریفات کے بجائے زیادہ تر مثالوں سے کام لیا گیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ قواعد کی معرفت فطری طور پر مثالوں سے ہوتی ہے،نہ کہ فقط تعریفات سے۔ أقسام القرآن مولانافراہی رحمہ اللہ کی ایک مختصر کتاب ’اقسام القرآن‘ کے نام سے ہے،یہ کتاب ’امعان فی اقسام القرآن‘ کا نقشِ اوّل ہے،اس کے مباحث میں کچھ اضافہ کر کے مولانا نے ’امعان‘ لکھی،سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’علی گڑھ کے قیام ہی کے زمانہ میں انہوں نے اقسام القرآن لکھی یعنی اس مشکل کا حل فرمایا کہ خدا نے قرآن مجید میں قسمیں کیوں کھائی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے امام رازی(606ء)نے تفسیر کبیر میں جستہ جستہ فقرے لکھے تھے،پھر ابن القیم نے ’البیان فی اقسام القرآن‘ لکھی،مگر مولانا حمید الدین فراہی صاحب کی تحقیقات نے اپنے الگ شاہراہ نکالی اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں انہوں نے ایسی دادِ تحقیق دی کہ تیرہ سو برس میں اسلام میں کسی نے نہیں دی،مولانا شبلی مرحوم نے ان کے اس رسالہ کا خلاصہ نہایت مسرت اورخوشی کے ساتھ ’الندوہ‘ اپریل 1906ء میں شائع کیا اورعربی رسالہ ’اقسام القرآن‘ کے نام سے الگ شائع ہوا۔اس کے بعد اس رسالہ کو مزید تحقیقات سے مؤید کر کے ’امعان فی اقسام القرآن‘ کے نام سے علی گڑھ میں چھپوایا۔‘‘[2]
Flag Counter