Maktaba Wahhabi

657 - 609
تفسیر نظام القرآن وتاویل الفرقان بالفرقان کے نام سے دو کتابیں دائرہ حمیدیہ نے طبع کی ہیں،ایک میں’فاتحۃ نظام القرآن،بسملہ،سورۂ فاتحہ اور اوپر مذکور دیگر قصار السور کے تفسیری اجزاء،جو مولانا نے مختلف اوقات میں لکھے تھے،کو اکھٹا کیا گیا ہے۔یہ کتاب 2008ء میں طبع ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری کتاب جو 2000ء میں طبع ہوئی،سورۂ بقرۃ کی نا مکمل تفسیر پر ہے۔مسودہ کے شروع میں مولانا نے حاشیہ پر لکھا ہے کہ ہر سورت کی تفسیر میں وہ سات عنوانات کے تحت گفتگو کریں گے۔اولاً ایک مقدمہ ہوگا جو عمومی مباحث اور سورت کے مضامین کے تجزیہ پر مشتمل ہوگا،پھر ہر مجموعۂ آیات پر بالترتیب الفاظ کی تحقیق اور جملوں کی تشریح،نحو،بلاغت،تاویل آیات،تدبر اور نظم کے عنوان سے بحث ہوگی۔چنانچہ تفسیر سورۂ بقرہ کے شروع میں 14 صفحات کا مقدمہ ہے جو دس فصلوں پر مشتمل ہے۔پندرہویں صفحہ سے اصل تفسیر کا آغاز ہوتا ہے جو 56 فصلوں میں 124 اوراق پر مشتمل ہے۔سورت کی 46 آیات پر مولانا نے اپنے مقررہ اصول کے مطابق تمام جہتوں سے کلام کیا ہے،البتہ 47 سے 62 تک کے مجموعۂ آیات پر صرف تین پہلووں(تفسیر الکلم،بیان تالیف الکلم اور نظرۃ من جہۃ البلاغۃ)سے بحث مکمل ہے،چوتھے عنوان(فی تاویل الجمل)کے تحت صرف تین سطریں لکھی جا سکی ہیں۔ تفسیر سورۂ بقرہ کا ایک اور مقدمہ بھی اس مسودہ کے ساتھ علیحدہ رکھا ہوا ہے جو مذکورہ بالا مقدمہ سے قدیم تر ہے اور پندہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر کے بہت سے مباحث کی تلخیص اگرچہ مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن جلد اول میں آگئی ہے لیکن اس کے باوجود اصل کتاب کی اہمیت اپنی جگہ پر باقی ہے اور یہ مسودہ بغیر کسی ترتیب وتہذیب کے موجودہ صورت میں اشاعت کے قابل ہے۔ 15۔جمهرة البلاغة ’جمہرۃ البلاغۃ‘ مولانا کے قیامِ کراچی کے زمانہ کی تصنیف ہے،لیکن مولانا کی زندگی میں اس کی تکمیل اور طباعت نہ ہو سکی۔ان کی وفات کے بعد مولانا اختر احسن اصلاحی اور امین احسن اصلاحی رحمہما اللہ نے اس کی ترتیب وتہذیب کا کام مکمل کیا۔ یہ کتاب اپنے موضوع،مطالب اورفن کے متعلق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے افکار وتصورات کے اعتبار سے ایک جامع ترین کتاب تصور ہوتی اگر یکسو ہو کر مولانا اس کو اسی معیار سے مکمل کر گئے ہوتے جیسے اس کی ابتداء کی تھی۔ مولانا شبلی رحمہ اللہ ’جمہرۃ البلاغۃ‘ کا تذکرہ ایک خط میں یوں کرتے ہیں: ’’تفسیر سورۃ ابی لہب اور جمہرۃ البلاغۃکے اجزاء بغور دیکھے،تفسیر پر تم کومبارکباد دیتا ہوں،تمام مسلمانوں کو تمہارا ممنون ہونا چاہیے،بلاغت کے بعض اجزاء معمولی اور سرسری ہیں،ارسطو(322 ق م)کا ردّ البتہ قابلِ قدر ہے،میں الندوہ میں اس کا اقتباس درج کروں گا۔‘‘[1] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’استاذ امام کی ’جمہرۃ البلاغۃ‘شائع ہو تویہ چہرہ بے نقاب ہو۔انہوں نے اس فن کی ترتیب ہی بدل دی ہے اور نئے اُصول دریافت
Flag Counter