Maktaba Wahhabi

667 - 609
’تفسیر‘ سے مراد تفسیر‘ بابِ تفعیل کا مصدر ہے،اس كے حروفِ اصلی(ف،س،ر)ہیں۔عربی زبان میں لفظِ ’فسر‘کھولنے،بیان کرنے اور واضح کرنے کے معنی میں آتا ہے۔بازو کھولنے کے لئے عربی میں فَسَرْتُ الذّرِاعَ کہا جاتا ہے۔اسی طرح فَسَّرْتُ الْحَدِيثَ كا معنیٰ ہے ’میں نے بات کو واضح کیا‘۔مجرد سےیہ بابِ ضَرَبَ یَضْرِبُ اور نَصَرَ یَنْصُرُ دونوں کے وزن پر آتا ہے۔’فسر‘ کا معنیٰ بے حجاب کرنا بھی ہے،تفسر کرتے وقت بھی مشکل لفظ کے معنیٰ ومفہوم کو گویا بے حجاب کیا جاتا ہے۔[1] اصطلاحی طور پر تفسیر سے مراد ’قرآنِ کریم کے معانی کا فہم اور اس کے احکام کا علم‘ ہے۔ جرجانی رحمہ اللہ(816ھ)نے علم تفسیر کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: "هو توضيح معنى الآية وشأنها وقصّتها والسّبب الذي نزلت فيه بلفظ يدل عليه دلالة ظاهرة"[2] كہ اس(تفسیر)سے مراد کسی آیتِ کریمہ کے معنیٰ،قصہ اور سببِ نزول کی وضاحت ایسے الفاظ سے کرنا ہے جو اس پر ظاہری طور پر دلالت کرتے ہوں۔ امام ابوحیان رحمہ اللہ(745ھ)فرماتے ہیں: "هو علم یَبحث عن كيفية النُّطق بألفاظ القرآن،ومدلولاتها،وأحکامها الإفرادية والترکیبية،ومعانيها التي تحمل عليها حالة الترکیب،وتتمّات لذلك." [3] کہ تفسیر وہ علم ہے جس کے ذریعے قرآنی الفاظ كا تلفظ،ان کے مفاہیم،ان کے افرادی وترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جن پر ترکیبی حالت استوار ہوتی ہے اور ان کے متعلق دیگر تکمیلی علوم پر غور کیا جاتا ہے۔ ٭ كيفية النطق بألفاظ القرآن:سے مراد علم القراءات ہے۔ ٭ ومدلولاتها:سے مراد علم لغت ہے جس کی تفسیر میں اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ٭ أحكامها الإفرادية والتركيبية:سے مراد علومِ صرف،نحو،بیان اور بدیع وغیرہ ہیں۔ ٭ ومعانيها التي تحمل عليها حالة الترکیب:سے مراد حقیقی ومجازی معانی ہیں۔ ٭ وتتمّات لذلك سے مراد ناسخ ومنسوخ اور اسباب نزول وغیرہ کا علم ہے۔ امام زرکشی رحمہ اللہ(794ھ)رقمطراز ہیں:
Flag Counter