Maktaba Wahhabi

681 - 609
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما التّفسير فأعلم الناس به أهل مكة،لأنهم أصحاب ابن عباس كمجاهد وعطاء بن أبي رباح وعكرمة مولى ابن عباس وغيرهم من أصحاب ابن عباس كطاؤوس وأبي الشعثاء وسعيد بن جبير وأمثالهم. وكذلك أهل الكوفة من أصحاب ابن مسعود،ومن ذلك ما تميزوا به عن غيرهم. وعلماء أهل المدينة في التفسير،مثل زيد بن أسلم الذي أخذ عنه مالك التفسير،وأخذ عنه أيضا ابنه عبد الرحمن،وعبد اللّٰه بن وهب"[1] کہ تفسیر کے سب سے بڑے عالم اہل مکہ تھے اس لئے کہ یہ لوگ سیدنا ابن عباس جیسے عظیم مفسر کے ساختہ پرداختہ تھے۔ابن عباس کے شاگردوں میں یہ حضرات بہت مشہور ہیں:مجاہد،عطاء بن ابی رباح،عکرمہ مولیٰ ابن عباس،طاؤس،ابو الشعثاء اور سعید بن جبیر وغیرہ۔اہل کوفہ میں سے سیدنا ابن مسعود کے اصحاب وتلامذہ نے بہت شہرت حاصل کی۔ان میں سے بعض بہت ہی نمایاں تھے۔اہل مدینہ میں بھی مفسرین کی ایک جماعت موجود تھی۔ان میں زید بن اسلم جن سے امام مالک نے تفسیر کا درس لیا،خاصی شہرت کے حامل ہیں۔زید بن اسلم سے ان کے بیٹے عبد الرحمٰن اور عبد اللہ بن وہب نے بھی استفادہ کیا۔ عہدِ تابعین کی تفسیری خصوصیات اس دَور کی تفسیر درج ذیل خصوصیات کی حامل تھی: 1۔اسرائیلیات کی آمیزش 2۔نقل وروایت کی چھاپ،مگر یہ عصر صحابہ کی طرح عمومی نہ تھی بلکہ ہر شہر کے رہنے والے اپنے علاقہ کے مفسرین سے تفسیری اقوال نقل کرتے تھے۔ 3۔مذہبی اختلافات پیدا ہوئے۔مثلاً قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ میں قدریت کے اثرات تھے،جس کی جھلک ان کی تفسیر میں بھی تھی،جبکہ اس کے برخلاف سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ کی تفسیر میں اثباتِ تقدیر کا رنگ نمایاں تھا۔ 4۔عہدِ صحابہ میں تفسیری اختلاف نہ ہونے کے برابر تھا۔عصر تابعین میں اختلاف کی خلیج وسیع ہوگئی۔تاہم تابعین کا تفسیری اختلاف متاخرین کی نسبت بہت کم تھا۔ علم تفسیر کی تدوین شروع کے اَدوار میں تفسیری اقوال کو بطریقِ روایت نقل کیا جاتا تھا۔صحابہ کرام رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ اقوال نقل کرتے تھے اور باہم ایک دوسرے سے بھی۔اسی طرح تابعین عظام صحابہ کرام سے بھی کسب فیض کرتے تھے اور آپس میں بھی۔یہ تفسیر کا پہلا مرحلہ تھا۔ عصر صحابہ وتابعین کے بعد تفسیر کے دوسرے مرحلہ کا آغاز تب ہوا۔جب تدوین حدیث کی داغ بیل پڑی۔حدیثِ نبوی مختلف
Flag Counter