Maktaba Wahhabi

691 - 609
بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ[1] کہ جس بات کاوعدہ ہم ان سے کرتے ہیں،اگر اس میں سے کچھ آپ کو دکھا دیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آیت نمبر 28 میں جس وعدہ کا ذکر کیا گیا ہے،اس سے دُنیوی عذاب مراد ہے۔ 3۔عموم کی تخصیص عام کو خاص پر محمول کرنےکی مثال یہ آیت قرآنی ہے:﴿مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ[2] کہ اس سے قبل کہ وہ دن آئے،جس روز نہ سودا بازی ہوگی،نہ دوستی اور نہ سفارش۔اس آیت میں دوستی اورسفارش کی نفی بطریق عموم فرمائی،پھر متقیوں کو دوستی کی نفی سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا:﴿الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ[3] کہ اس روز دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے،مگر متقی نہیں۔اسی طرح اذنِ ربانی پر مبنی سفارش کو بھی مستثنیٰ قرار دیا ہے،فرمایا:﴿وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى[4] کہ آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جس کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دیتی مگر جسے اللہ چاہے اورپسند کرے اسے اذن الٰہی کے بعد سفارش کا حق حاصل ہو تا ہے۔ 4۔مطلق کی تقیید امام غزالی رحمہ اللہ(505ھ)نے اسکی مثال یہ بیان فرمائی ہے کہ آیتِ وضو میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ[5] کہ اپنے چہروں اورہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو۔اس آیت میں ہاتھ دھونےکی تحدید کہنی تک کی گئی ہے،جبکہ اسی آیت میں تیمّم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ[6] کہ اپنے چہروں اورہاتھوں کو اس سے مل لو۔یہاں ہاتھ کی تحدید نہیں کی گئی،لہٰذا اسے بھی ’کہنیوں تک‘ پر محمول کرتے ہوئے مقید کرلیں گے۔[7] 5۔غریب الفاظ القرآن کی تفسیر مثلاً فرمایا:﴿وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ()وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ[8] کہ آسمان اور طارق کی قسم اورآپ کیا جانیں کہ طارق کیا ہے؟ آگے
Flag Counter