Maktaba Wahhabi

701 - 609
أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ[1] قضائے صیام کے مسئلہ میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ابراہیم نخعی رحمہ اللہ قضائے صیام میں تسلسل کو شرط قرار دیتے ہیں۔داؤد ظاہری رحمہ اللہ کے نزدیک تسلسل شرط نہیں بلکہ واجب ہے۔اس کے برعکس ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا مؤقف یہ ہے کہ قضائے صیام میں تسلسل شرط نہیں ہے البتہ مستحب ضرور ہے۔[2] فقہاء کے مابین اس مسئلہ میں اختلاف کی ایک وجہ قراء تِ شاذہ ہے جو سيدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ مُتَتَابِعَاتٍ[3]اس میں متتابعات کا اِضافہ ہے۔جبکہ قراء تِ متواترہ کے ظاہر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا میں تسلسل شرط نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان وقفہ بھی کیا جاسکتا ہے،لیکن قراء تِ شاذہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قضائے صیام میں تسلسل شرط ہے۔دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قراء تِ متواترہ میں قضائے صیام کا حکم مطلق تھا لیکن قراء تِ شاذہ نے اس مطلق حکم کو مقید کر دیا ہے۔ 3۔وجوبِ عمرہ کا مسئلہ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے زندگی میں ایک دفعہ صاحب حیثیت مکلّف انسان پر حج بیت اللہ کی ادائیگی کو فرض قرار دیا گیا ہے۔لیکن اِختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ کیا عمرہ بھی زندگی میں ایک دفعہ اَدا کرنا فرض ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہاء کے درمیان دو موقف پائے جاتے ہیں۔پہلا شافعیہ اور حنابلہ کا ہے،[4]جو عمرہ کو حج کی مانند فرض قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرا موقف حنفیہ اور مالکیہ کا ہے،[5]جن کے نزدیک زندگی میں ایک دفعہ عمرہ اَدا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ فقہاء کے مابین اس اِختلاف کی ایک وجہ قراء تِ شاذہ ہے۔اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ[6] اس آیتِ کریمہ میں متواتر قراءت تو﴿وَالْعُمْرَةَ﴾تاء کے نصب کے ساتھ ہے،جبکہ اس میں ایک شاذ قراءت یعنی العُمْرَةَ برفع التاء بھی ہے۔[7]عمرہ کو فرض قرا ر دینے والے فقہاء نے نصب والی متواتر قراء ت سے اِستدلال کیا ہے کہ عمرہ کیلئے بھی اَمر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔جس کا تقاضا یہ ہے کہ عمرہ کو فرض قرار دیا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ’العمرة لِلّٰهِ ‘ میں ایک جملہ خیریہ کا بیان ہے کہ جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عمرہ خالص اللہ کیلئے ہے اور اس میں مشرکین کی مانند بتوں کو شریک کرنا درست نہیں ہے۔لہٰذا
Flag Counter