Maktaba Wahhabi

703 - 609
2۔اشکال کی توضیح اس کی مثال سورۂ بقرہ میں یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ[1] کہ تم کھاؤ پیو حتیٰ کہ تمہارے لئے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرماتے ہوئے﴿الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ﴾کی تفسیردن کی سفیدی سے اور﴿الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ﴾کی رات کی سیاہی سے کی ہے۔[2] 3۔عموم کی تخصیص فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ[3] کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کوظلم سے محفوظ نہ کیا،ان کے امن وامان ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں ظلم کا لفظ عام وارد ہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرک کے ساتھ مخصوص کردیا،بعض صحابہ کرام نے ظلم سے عموم کا مفہوم سمجھ کر کہا کہ ایسا کون ہو سکتا ہے جس سے ظلم سرزَد نہ ہو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ،إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ:﴿يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ[4] یہ مطلب نہیں،بلکہ اس سے مراد تو وہ ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ اے پیارے بیٹے!اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا،یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اسی طرح فرمان الٰہی:﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ[5] کہ اوران کے خلاف جتنی ہو سکے قوت تیار رکھو۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوت کی تفسیر تیر اندازی سے فرمائی ہے۔[6] 4۔مطلق کی تقیید قرآن كريم میں چور کی سزا یوں بیان ہوئی ہے:﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا[7] کہ چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کا ٹ دو۔ اس آیت مبارکہ میں ہاتھ کو مطلق بیان کیا گیا ہے،دائیں یا بائیں کی قید نہیں لگائی،مفسّر قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اطلاق کو ’دائیں
Flag Counter