Maktaba Wahhabi

705 - 609
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی حکم: ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ[1] کہ تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کو آئیں تو ان پر چار گواہ ٹھہراؤ،اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند رکھو۔ کو اپنے اس فرمان: ((خُذُوا عَنِّي،خُذُوا عَنِّي،قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيلًا:الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْىُ سَنَةٍ،وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ))[2] کہ مجھ سے لے لو،مجھ سے لے لو،اللہ عزو جل نے ان کيلئے راستہ نکال دیا ہے:اگر كنوارا مرد كنواری عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے،اور اگرشادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑے اور رجم کی سزا ہے۔سے منسوخ کر دیا۔ 8۔تائید وتاکید قرآنِ حکیم میں جو حکم مذکور ہو،بعض دفعہ حدیث سے اس کی تائید وتاکیدِ مزید کر دی جاتی ہے،مثلاً قرآنِ کریم میں ارشاد ہے﴿لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ[3] کہ اپنے مال ناروا طریقہ سے مت کھاؤ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ نبوی میں اس کی یوں تاکید وتائید فرمائی:((لَا يَحِلُّ لامْرِئٍ مِنْ مَالِ أخِيْهِ شَيْءٌ إلاَّ بِطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ))[4]کہ کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔ نوٹ یہ دونوں طرح کی تفسیریں(تفسیر القرآن بالقرآن اورتفسیر القرآن بالحدیث)بلاشبہ تفسیر کی اعلیٰ وارفع انواع ہیں،ان کے قبول کرنے میں کسی قسم کا کوئی تردّد نہیں،بشرطیکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمہم اللہ وغیرہ سے منقول ہوں،کیونکہ اللہ عزو جل اپنی مراد کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔اور ہمارے پاس اللہ عزو جل کی مراد جاننے کا کوئی ذریعہ قرآن کریم اور سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ما سوا نہیں ہے۔اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی بھی تھا،فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ
Flag Counter