Maktaba Wahhabi

712 - 609
کو زیادہ سمجھتے تھے بایں وجہ کہ وہ نزولِ وحی کے وقت موجود تھے،اور ان حالات سے جن میں قرآن نازل ہوا،انہیں آگاہی تھی،علاوہ ازیں وہ مکمل فہم و فراست،صحیح علم اور نیک اعمال کی خوبیوں سے متصف تھے۔ اس بناء پر علماء نے قرآن و سنت کے بعد اقوال صحابہ کی طرف رجوع کو لازمی قرار دیا ہے۔ قولِ صحابی:موقوف یا مرفوع ؟ مرفوع وہ حدیث ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو اور موقوف حدیث صحابی کے قول وفعل کو کہتے ہیں،لیکن صحابہ کرام کے اقوال وافعال کی بعض قسموں کو محدثین مرفوع میں شامل کرتے ہیں۔ قولِ صحابی کی دو صورتیں ہیں: 1۔ اگر صحابی کسی آیت کا مطلب نہ بتائے بلکہ ویسے ہی کوئی مسئلہ بیان کرے،مثلاً یوں کہے کہ یہ شے حلال ہے یا حرام یامکروہ ہے یا مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے یا نہ کرے،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم السّلام عليك أيّها النبي کہا کرتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد السّلام على النبي کہتے ہیں۔[1]يا اس قسم کا کوئی اور قول ہو تو یہ فتویٰ صحابی ہے۔ 2۔ وہ قول کسی آیت کی تفسیر میں ہو مثلاً صحابی یوں کہے کہ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ[2] سے مراد بادلوں کا سایہ ہے،اور﴿قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ[3]سے مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھلوں کا آنا مراد ہے،اور﴿وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ[4]سے مراد لوہے کا موم ہونا ہے،اور﴿تَأْكُلُهُ النَّارُ[5]سے مراد آسمانی آگ ہے،اور﴿عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى[6]سے مراد بیری ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے یا اس قسم کا کوئی اور قول ہو تو یہ تفسیر صحابی کہلائے گی۔ فتویٰ صحابی فتویٰ دینے والا صحابی اگر اسرائیلیات یعنی پہلی کتابوں(تورات،انجیل وغیرہ)سے اَخذنہ کرتا ہو اور ا س کے فتویٰ میں رائے اور اجتہاد کا بھی دخل نہ ہو تو ایسا فتویٰ مرفوع حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے حکم میں ہے۔[7] مثلاً اگر ابوہریرہ فرمائیں
Flag Counter