Maktaba Wahhabi

713 - 609
کہ جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ہے اس میں بندہ جو مانگے اللہ عزو جل دیتے ہیں۔[1]تو یہ مرفوع حدیث ہو گی اور اگر اسی بات کو عبداللہ بن سلام(43ھ)بیان کریں تو اس پر مرفوع کا حکم نہیں لگایا جائے گا بلکہ اس کو موقوف یعنی قولِ صحابی کہا جائے گا۔کیونکہ عبداللہ بن سلام پہلی کتابوں کے عالم تھے اور ان سے نقل بھی کرتے تھے تو ممکن ہے کہ جمعہ کی گھڑی کی بابت بھی پہلی کتابوں ہی سے نقل کیا ہو۔اسی طرح اگر کسی فتویٰ میں رائے اور اجتہاد کا دخل ہو تو اس کو بھی مرفوع حدیث نہیں کہا جائے گا۔جیسے جابر بن عبد اللہ(78ھ)کہتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام کے پیچھے۔اس فتوے میں اجتہاد کا دخل ہو سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ جابر نے منفرد(اکیلے)اور مقتدی کے درمیان فرق کرنے کی غرض سے یہ فتویٰ دیا ہو اور فاتحہ خلف الامام کی روائتیں ان کو نہ پہنچی ہوں،اگر پہنچتیں تو یہ فتویٰ نہ دیتے۔[2] تفسیر صحابی تفسیر صحابی کی ممکنہ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں:1۔لغت کی تشریح،2۔تعین مصداق،3۔شانِ نزول،4۔گذشتہ امّتوں کے حالات اور آئندہ فتنوں کی خبر،5۔ناسخ و منسوخ 1۔لغت کی تشریح آیات قرآنی کی تشریح کی ایک صورت تو ہے جو اہل لغت کیا کرتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں۔أبکاه الدّهرأي أحزنه یعنی زمانہ نے اس کو غمگین کیا۔اس صورت میں مقصد صرف الفاظ کے لغوی معنی بتانا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ صحابہ کرام جب آیت کی ایسی تفسیر کریں جس سے ان کا مقصود آیت کا اصل مطلب بتانا ہو تو وہ تفسیر تشریحِ لغت کی قسم میں سے ہو گی۔ ایسی تفسیر کو علماء نے موقوف قرا ردیا ہے،البتہ اس میں مرفوع ہونے کے بھی کچھ آثار موجود ہیں یعنی کئی اس قسم کی روائتیں آئی ہیں جن میں صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفاظ سیکھتے تھے ویسے ہی معانی سیکھتے تھے۔[3] یہ بات ظاہر ہے کہ ان علومِ عربیہ کے ذریعہ سے بہت سے مسائل استنباط کئے جاتے ہیں مگر اصل غرض اور اعلیٰ مقصد ان علوم کی ایجاد سے یہ ہے کہ متکلّم کی مراد سمجھنے پر انسان قادر ہو جائے اور خود بھی ایسا کلام کرے جس سے ان کا مخاطب اس کے مافی الضمیر کوبخوبی سمجھ سکے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ہم تو متکلم کی مراد سمجھنے میں ان علوم کے محتاج ہیں مگر صحابہ محتاج نہ تھے۔اب اس کانتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ جب آیت کی ایسی تفسیر کریں جس سے ان کا مقصود آیت کا اصل مطلب بتلانا ہو گا تو وہ تفسیر تشریح لغت کی قسم سے ہو گی کیونکہ جب ہمارا ان علوم کے ساتھ اصلی مطلب کو سمجھنا تشریح لغت میں داخل ہے تو صحابہ کا سمجھنا بطریق اولی تشریح لغت میں دخل ہو گا کیونکہ ان کی زبان مادری تھی مثلاً آیات﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ[4]،﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ[5]
Flag Counter